لاہور : سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ پاکستان میں سول اور عسکری قیادت کے میل جول سے چلنے والا ہائبرڈ نظام ملک کو تاریکی کی طرف دھکیل رہا ہے کیونکہ ایک شخص یعنی آرمی چیف کے پاس ’ویٹو پاور‘ ہے۔میرے دور میں صحافیوں اور اپوزیشن کے خلاف جو بھی کارروائیوں ہوئیں ان میں میرا کوئی قصور نہیں سب اسٹیبلشمنٹ نے کیا۔
امریکی چینل ایم ایس این بی سی کے اینکر مہدی حسن کو دیے انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ ان کے دور حکومتِ میں صحافیوں اور اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن میں اسٹیبلشمنٹ ملوث تھی۔
اینکر نے ان سے پوچھا کہ جب آپ حکومت میں تھے تب آپ فوج کے ساتھ ٹھیک تھے، آپ نے بھی اپوزیشن رہنماؤں اور صحافیوں کو گرفتار کیا، اب آپ کہہ رہے ہیں کہ یہی آپ کے ساتھ ہو رہا ہے۔
عمران خان نے جواب دیا کہ ’آپ میرے دور سے اس کا موازنہ نہیں کر سکتے۔ جنرل مشرف کا مارشل لا اس سے زیادہ لبرل تھا۔ آپ بتائیں میں نے کون سا چینل بند کیا۔ اس دور میں چار صحافی ملک چھوڑ گئے۔ پانچویں نے چیف جسٹس کو خط لکھا کہ اس کی جان خطرے میں ہے، اس کا کینیا میں قتل ہوگیا۔
اینکر نے پوچھا کہ آپ کے دور میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے آپ کو 2020 میں ’آزاد پریس کا شکاری‘ کہا تھا، آپ پر صحافیوں کو دھمکیاں دینے اور گرفتار کرنے کا الزام لگا۔ حامد میر کو آپ اپنا پسندیدہ صحافی کہتے تھے، مگر آپ کے دور میں انھیں آن ایئر نہیں ہونے دیا گیا۔ آپ کوئی فری پریس کے چیمپیئن نہیں۔ کیا آپ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے ساتھ ہوا اس لیے یہ بُرا ہے؟
عمران حان نے جواب دیا کہ ’مجھے مطیع اللہ جان کے اغوا کا پتا چلا تو اگلے دن میں اسے واپس لایا۔ مسئلہ یہ تھا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ کا اختتام ہو رہا تھا، اسٹیبلشمنٹ اپنے اوپر تنقید سے پریشان تھی۔ کچھ لوگ کو اٹھانے کے ذمہ دار وہ (اسٹیبلشمنٹ) تھے۔ لیکن یہ اس حد تک نہیں ہوا جو اب ہو رہا ہے۔
عمران خان نے کہا کہ ’میڈیا پر میرا نام نہیں لیا جا سکتا۔‘ اس پر مہدی حسن نے پوچھا کہ ’آپ کے دور میں تو نواز شریف کا نام بھی نہیں لیا جاسکتا تھا جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ ’نہیں ایسا نہیں تھا۔ نواز شریف کو سپریم کورٹ نے سزا دی۔ وہ ایسے ٹیسٹ لائے کہ وہ مرنے والے ہیں۔ ان کے بھائی کے بیان حلفی پر وہ بیرون ملک علاج کے لیے گئے۔
اچانک ان کی بیماری ختم ہوگئی اور وہ پاکستان کو لیکچر دینے لگے۔ آپ اس کا موازنہ جو میرے ساتھ ہو رہا ہے، اس سے نہیں کر سکتے۔ مجھ پر کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔
اینکر نے جب ان سے پوچھا کہ آیا انھیں اپنے دور حکومت میں کوئی پچھتاوا رہا تو ان کا کہنا تھا کہ مخلوط اور کمزور حکومت کے ساتھ اقتدار ملنے پر ’مجھے دوبارہ الیکشن کے لیے جانا چاہیے تھا۔