حکومت وقت کی طرف سے اشتہار تو میرے کالم کا اوپر درج’ٹائٹل‘ہو نا چاہیے تھا لیکن آج کے اخبار کے آخری صفحہ پر آدھے صفحہ کا اشتہار حکومت پنجا ب کے محکمہ ایکسائز‘ ٹیکسیشن اینڈ نارکوٹکس کنٹرول ڈیپارٹمنٹ نے کچھ یوں دیا ہے ”2013-2014 کے بعد مالی سال 2020-2021 میں سو فیصد ٹیکسز کا حصو ل - پراپرٹی ٹیکس، موٹر وہیکل ٹیکس، ایکسائز فیس،کاٹن فیس، انٹر ٹینمنٹ ڈیوٹی، لگژری ہاؤس ٹیکس اور دیگر صوبائی ٹیکسز کی وصولی میں ریکارڈ اضافہ۔“ ساری دنیا کی حکومتیں اپنے لوگوں کو سہولیات کی فراہمی کے لیے ان سے مختلف مدوں میں ٹیکسز وصول کرتی ہیں اور پھر ان کے عوام ان سہولیات سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔دنیا کے کچھ ممالک کی حکومتوں کی دیانتداری سے اپنے فرائض سرانجام دینے پر تو وہاں کے لوگ خود اپنی حکومت سے یہ ڈیمانڈ کرتے ہیں کہ وہ زیادہ ٹیکس لیں تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ سہولتوں کو انجوائے(enjoy) کر سکیں۔ ان ممالک میں سویڈن، ڈنمارک، فن لینڈ اور ناروے شامل ہیں۔لیکن آپ نے ضرور محسوس کیا ہو گا کہ اپنے ملک میں کوئی بھی حکومت کو ٹیکس نہیں دینا چاہتا۔لوگوں کو معلوم ہے کہ ہمارے سے لیا گیا پیسہ حکومتی عہدہ داران اور ان کے حواریوں کی جیبوں میں جائیگا۔ ہمارے ہاں حکومت زبردستی اور دھونس دھاندلی سے ٹیکس وصول کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہو گا کہ وفاقی سطح پر ایف بی آر (FBR) پر ہر وقت دباؤ رکھا جاتا ہے کہ زیادہ سے زیاد ہ لوگوں سے پیسے نکلواؤ اور حکومتی خزانے میں ڈالو تاکہ حکمران اور ان کے ساتھی اس دولت سے خوب زندگیاں انجوائے کریں۔ وزیراعظم ہیلی کاپٹر سے دفتر آئیں جائیں، وزیراعلیٰ مرسڈیزوں میں گھومیں اور عوام چنگ چیوں میں سفر کے لطف لیں تاکہ دنیا کے سامنے ریاست مدینہ کا عملی طور پر مظاہرہ ہو سکے۔
ہماری حکومتوں کی یہ ٹیکس وصولیاں تو غریبوں کے کمزور اورلاغر جسموں سے خون نچوڑنے کے مترادف ہیں۔شاید آپ کے ذہن میں آرہا ہو کہ ٹیکس وصولیاں تو امیروں سے بھی ہوتی ہیں۔ نہیں بھئی نہیں۔ کوئی زلفی بخاری سے یا رزاق داؤد سے، روحیل اصغر سے یا خو اجہ آصف سے، پیپلز پارٹی کے خورشید شاہ سے یا فاروق نائیک سے وصولیاں کر سکتا ہے۔میں تواس ملک کی حکومتوں کی ڈھٹائی سے بھی حیران ہو جاتا ہوں کہ یہ ٹیکسوں کے نام پر عوام کا خون نچوڑنے کے بعد اخباروں اور میڈیا کے دوسرے ذرائع پر اسے اپنے کارنامہ کے طور پر پیش کرتے ہیں اور پھر یہ توقع بھی کرتے ہیں کہ عوام انہیں داد دے کہ انہوں نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ موجودہ حکومت نے ابھی دو دن پہلے قوم کو سالانہ بجٹ دیا۔وزیراعظم نے حسب روایت اسمبلی کے فلور پر نئے وزیر خزانہ اور ان کی ٹیم کی تعریف کی اور قوم سے بھی یہ امید باندھی کہ وہ اس بجٹ کی تعریف کرے،لیکن نئے مالی سال کے پہلے دن کی پو پھٹنے سے پہلے ہی قوم کو پٹرول کی بڑھی قیمت کا تحفہ دے دیا۔ دو روپے فی لیٹر کا اضافہ۔ کسے نہیں معلوم کہ پٹرول کی بڑھی قیمتیں ہر چیز کی مہنگائی کا موجب بنتی ہیں۔ پٹرول کی بڑھی قیمت ہر فرد کی معاشی صورت کو تلپٹ کرنے کا موجب بنتی ہے۔ اپنی ٹرانسپورٹ رکھنے والوں کے اخراجات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ پبلک ٹرانسپورٹ اپنے کرایے بڑھا دیتی ہے جس کا اثر عام آدمی زیادہ کرایوں کی صورت میں بھگتتا ہے۔ ضروریات زندگی کی اشیاء اور خصوصاً اجناس وغیرہ کی ٹرانسپورٹیشن (transportation) کے اخراجات بڑھ جاتے ہیں جس سے ہر سُو مہنگائی کی لہریں پھوٹ پڑتی ہیں اور افراط زر کا دور دورہ ہو جاتا ہے۔وزیراعظم عمران خان ہر موقع پر کہتے رہتے ہیں کہ انہیں معلوم ہے کہ ملک میں مہنگائی ہے اور وہ اسے اپنی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج سمجھتے ہیں۔ سچ پوچھیں اب اس قوم نے اپنے وزیراعظم کو تین سال دیکھ لیا ہے۔ قوم جانتی ہے کہ وہ لارے لگانے اور سہانے خواب دکھانے میں
اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔آپ نے غور کیا ہے کہ انہوں نے حکومتی پراپیگنڈے کے لیے عوام کے خرچے پر کتنے ترجمان رکھے ہوئے ہیں۔ سچ پوچھیں ترجمانوں کی فوج ہے۔ ماضی کی کسی حکومت نے کبھی اتنے ترجمان نہیں رکھے۔اب اگر آپ ان کی سیاسی مہم پر نظر دوڑائیں تو نظر آتا ہے کہ انہوں نے قوم کو وہ خواب دکھائے کہ ہر آدمی یہ کہنے لگ گیا تھا کہ یار انہیں ایک موقع تو ضرور دینا چاہیے۔ مثبت پہلو یہ ہے کہ قوم نے انہیں اور ان کی حکومت دیکھ لی، لیکن انہوں نے مہنگائی سے قوم کا وہ حشر کیا ہے کہ قوم بھلانا بھی چاہے گی تو بھلا نہ سکے گی۔ گورننس کا جو حال ہے کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں
ہے۔ صوبہ پنجاب میں جاری کرپشن کی باتیں ہر محفل میں سنائی دیتی ہیں۔ اب نیا مسئلہ جس کا سامنا قوم کو ہے وہ ہے لوڈ شیڈنگ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ یہ مسئلہ پرویز مشرف کے آخری ایام میں شروع ہو گیا تھا۔ پرویز مشرف کے جانے کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی تو انہوں نے اس مسئلہ میں بھی کمائی کے ذریعے ڈھونڈ لیے اور پھر اُن کے وزیر اعظم کے نام کا حصہ بھی رینٹل بن گیا۔ میرے خیال میں وہ اب بھی اس سلسلے کے کیس بھگت رہے ہیں لیکن مسلم لیگ (ن) کی لیڈر شپ نے اس مسئلہ کو حل کرنے کی طرف ایک کامیاب قدم بڑھایا اور اس ملک میں لوڈ شیڈنگ کو تقریباً ختم کرکے دکھا دیا۔دنیا میں موسموں کی تبدیلی رواں دواں ہے جس کا منطقی نتیجہ گرمیوں کی بڑھوتری ہے۔ ا س کے اثرات پاکستان میں بھی واضح ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ قوم گرمی میں جھلسنا شروع ہو گئی ہے۔ ہمارے وزیراعظم اس سلسلے میں یوں بیانات دیتے رہتے ہیں جیسے انہیں اس مسئلہ کا بڑا ادراک ہے اور اس کے حل کے لیے وہ خصوصی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن عملی طور پرآپ کو کچھ بھی نظر نہیں آئیگا۔ قوم نے اس شدید گرمی میں لوڈشیڈنگ کی اذیت برداشت کرنی شروع کر دی ہے۔ بدقسمتی سے آج کے حکمرانوں میں نہ وہ دانشوری ہے اور نہ حکمت عملی،کہ وہ اس عذاب سے قوم کی جان چھڑا دیں گے۔لیکن قوم کا ایک مطالبہ ضرور ہونا چاہیے اور وہ یہ ہے کہ جب بھی اور جس شہر میں بھی لوڈشیڈنگ ہو وہاں کے حکمران بھی لوڈشیڈنگ میں کام کریں گے، کوئی جنریٹرز نہیں چلیں گے۔ جس کا آغاز وزیراعظم اور وزارائے اعلیٰ کے دفاتر سے شروع ہونا چاہیے تاکہ دنیا پر عیاں ہو کہ قوم جس اذیت سے گزر رہی ہے اس کے حکمران بھی اس کا سامنا کر رہے ہیں، یہی پالیسی ان کی رہائش گاہوں پر بھی نافذ ہونی چاہیے۔میری ناقص رائے میں اسی پالیسی کے نتیجہ ہی میں لوڈشیڈنگ ختم ہو سکتی ہے ورنہ نہ جانے قوم کب تک اس عذاب میں مبتلا رہے۔ ریاست مدینہ کی مثالیں دینے والوں کو دنیا کو دکھا دینا چاہیے کہ ہم صرف باتوں کے دھنی نہیں ہیں، کرکے دکھا دیتے ہیں۔
نمایاں ہو کے دکھلا دے کبھی ان کو جمال اپنا