پشاور: گورنر خیبرپختونخوا، فیصل کریم کنڈی نے صوبائی اپیکس کمیٹی کے حوالے سے سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس کمیٹی میں صرف حکومتی نمائندے شامل ہیں اور اپوزیشن کو نظرانداز کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے صوبے کے حالات کا درست جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
پشاور پریس کلب کی نو منتخب کابینہ کو مبارکباد دینے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ پی ٹی آئی اور حکومت کے درمیان مذاکرات میں کوئی خاص پیش رفت نہیں دکھائی دے رہی۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ پی ٹی آئی کو کسی بھی صورت این آر او نہیں ملے گا، اور یہی مذاکرات ہی تمام مسائل کا حل ہیں، مگر اس سلسلے میں ابھی تک کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھایا گیا۔
گورنر نے کہا کہ حکومت نے صوبے میں اپنی رٹ قائم کی ہے جس پر خوشی ہے، لیکن وہ بلدیاتی نمائندوں پر ہونے والی شیلنگ اور لاٹھی چارج کی سخت مذمت کرتے ہیں۔
فیصل کریم کنڈی نے بتایا کہ صوبے کے بلدیاتی ناظمین کا ایک کنونشن گورنر ہاؤس میں منعقد کیا جائے گا، جہاں ان کے مطالبات پر سنجیدہ گفتگو کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کو بنوں، کوہاٹ، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک جیسے علاقوں میں جا کر حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔
گورنر خیبرپختونخوا نے کہا کہ جب میں نے کرم جانے کی تجویز دی تو وزیر اعلیٰ فوراً وہاں پہنچ گئے، لیکن آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) بلانے کے باوجود کوئی عملی اقدامات نہیں کیے گئے۔ فیصل کریم کنڈی نے اپیکس کمیٹی میں قائد حزب اختلاف کو شامل کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ اپوزیشن کے بغیر اپیکس کمیٹی کا کوئی فائدہ نہیں، اور 2013 میں پی ٹی آئی کے ہاتھوں صوبے کی حکومت ملنے کے بعد سے اب تک خیبرپختونخوا کی حکومتی کارکردگی تسلی بخش نہیں رہی۔
آخر میں گورنر نے صوبے میں امن و امان کی تشویشناک صورتحال پر بھی اظہارِ تشویش کیا اور وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور کے بیان کا حوالہ دیا، جس میں انہوں نے فوج کو صوبے سے نکالنے کی بات کی تھی۔ فیصل کریم کنڈی نے سوال کیا کہ اگر پولیس کی صلاحیتوں پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ فوج کو نکال کر امن قائم رکھا جائے؟