پشاور:پشاور ہائیکورٹ کےجسٹس اعجاز انور نے اپیل کی سماعت کی۔ پی ٹی آئی کے وکلا نے اپنے دلائل پیش کیے جبکہ الیکشن کمیشن کے وکلا گزشتہ ساعت پر اپنے دلائل پیش کر چکے تھے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند اور پی ٹی آئی کے وکیل شاہ فیصل اتمانخیل عدالت میں پیش ہوئے۔
پی ٹی آئی کے وکیل شاہ فیصل نے استدعا کی کہ سینئر وکیل قاضی انور آ رہے ہیں جو دلائل پیش کریں گے، ہمیں تھوڑا وقت دیا جائے۔
بعد ازاں پی ٹی آئی کے وکیل قاضی انور نے اپنے دلائل کے آغاز میں کہا کہ کیا الیکشن کمیشن ہائیکورٹ کے فیصلے کیخلاف عدالت آ سکتا ہے؟۔ ان کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی رٹ ٹھیک نہیں، 26 دسمبر کو فیصلہ آیا انہوں نے اب تک اس پر عمل نہیں کیا۔
الیکشن کمیشن نے ابھی تک اپنی ویب سائٹ پر انٹراپارٹی انتخابات سرٹیفیکٹ جاری نہیں کیا۔جسٹس اعجاز خان نے استفسار کیا کہ کیا آپ کی جانب سے کوئی توہینِ عدالت کا کیس آیا ہے؟ قاضی فیصل کا کہنا تھا کہ ہمارے امیدواروں کے کا غذات نامزدگی مسترد ہو رہے ہیں الیکشن کمیشن نے اس حوالے سے کیا کیا۔الیکشن کمیشن کو ویب سائٹ پر سرٹیفکیٹ ڈالنے سے کیا مسئلہ ہے؟
جسٹس اعجاز خان نے کہا کہ یہ اب ان سے ہم پوچھیں گے۔
قاضی انور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ایک پارٹی کو ایک طرف کرنا الیکشن کمیشن اور جمہوریت کے لیے ٹھیک نہیں، الیکشن کمیشن کو ایک سیاسی جماعت کے خلاف استعمال نہیں کرنا چاہیے تھا،انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے پاس پارٹی کا انتخابی نشان واپس لینے کا اختیار نہیں تھا، ہم چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کروائے۔
الیکشن کمیشن کی پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر نظر ثانی اور ڈویژن بینچ کیلئے درخواست آج تک ملتوی کر رکھی تھی۔
گزشتہ سماعت پرپشاور ہائیکورٹ نے الیکشن کمیشن کی جانب سے دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔ بعد ازاں، عدالت کی جانب سےکہا گیا کہ دوران سماعت پی ٹی آئی کی جانب سے کوئی وکیل پیش نہیں ہوا تھا، پی ٹی آئی کے وکیل نے سماعت ملتوی کرنے کی استدعا کی۔
عدالت نے پی ٹی آئی کی استدعا قبول کرتے ہوئے درخواست کی سماعت آج تک ملتوی کر دی۔
گزشتہ سماعت میں الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل پیش کیے کہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن صحیح طریقے سے نہیں کرائے، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر سوال اٹھائے گئے، کہا گیا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غیر آئینی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ پشاور ہائیکورٹ کے سنگل بینچ نے انتخابی نشان سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کیا، الیکشن کمیشن کو سنے بغیر حکمِ امتناعی جاری کیا گیا، الیکشن کمیشن اس میں فریق تھا اس کو نہیں سنا گیا، وفاقی حکومت کیس میں فریق ہی نہیں ہے، الیکشن کمیشن ایک با اختیار ادارہ ہے، اسے اپنے فیصلے کرنے کا اختیار ہے، انہوں نے جو ریلیف دیا وہ پورا فیصلہ ہے اس کے بعد کچھ نہیں بچا، الیکشن کمیشن کو سنے بغیر ایسا فیصلہ نہیں دیا جا سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل کو سنا، ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور ڈپٹی اٹارنی جنرل صوبائی اور وفاقی حکومت کے نمائندے ہیں، پی ٹی آئی نے لاہور ہائی کورٹ میں بھی درخواست دائر کی، ایک عدالت منتخب کی تو پھر دوسری میں نہیں جا سکتے، اس پر سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔
پشاور ہائیکورٹ کے جسٹس اعجاز خان نےاستفسار کیا کہ اس کیس میں درخواست گزار پارٹی سے کوئی موجود ہے؟ الیکشن کمیشن کے وکیل نے جواب دیا کہ ہمیں کوئی نظر نہیں آ رہا، یہ خبر تو پورا دن نیوز چینلز پر چلی ہے، مجھے نہیں لگتا کہ ان کو یہ پتہ نہیں ہو گا کہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہے، ہماری استدعا ہے کہ 26 دسمبر کا آرڈر واپس لیا جائے، ڈویژن بینچ قائم کیا جائے تاکہ کیس کی سماعت صحیح طریقے سے ہو سکے، دونوں پارٹیوں کو سننے کے بعد فیصلہ کیا جائے۔
ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم اس کیس میں فریق نہیں بننا چاہتے، ہماری نگراں صوبائی حکومت ہے، ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں برابر ہیں، ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہمیں اس کیس سے نکالا جائے، اگر ہمیں نوٹس جاری کیا جاتا ہے تو پھر عدالت کی معاونت کریں گے۔
جسٹس اعجاز خان نےسوال کیا کہ وفاقی حکومت کا بھی یہی مؤقف ہے؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی ہمارا بھی یہی مؤقف ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ صرف صوبے تک فیصلہ کر سکتی ہے، انٹرا پارٹی انتخابات پورے ملک کے لیے ہوئے ہیں۔
بعد ازاں عدالت نے دلائل مکمل ہونے پر پی ٹی آئی انٹرا پارٹی الیکشن اور پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق کیس پر فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔