پاکستان میں پولیس طاقتور ہمہ گیر اور اہم فورس ہے لیکن اس کے باوجود جرائم پیشہ لوگ مختلف شکلوں میں ہر جگہ اور خاص طور پر شہروں میں موجود ہیں بڑے جرائم میں قتل عصمت دری نابالغ کے ساتھ جنسی زیادتی اغوا مسلح ڈکیتی، چوری منظم جرائم میں دھوکہ دہی، منشیات فروشی، سمگلنگ، منی لانڈرنگ، بھتہ خوری، تاوان وغیرہ شامل ہیں۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کی چوری خاص طور پر بڑے شہروں میں عام ہے۔ اگر ہم پنجاب کی بات کریں تو گزشتہ چند سال میں جرائم میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، (اس کی وجہ مہنگائی کے ستائے عوام کا پیسے کمانے کا شارٹ کٹ طریقہ سمجھ لیں یا کچھ اور مگر جرائم میں بے تحاشا اضافہ سب کے لیے درد سر بنا ہوا ہے۔) جیسے 2017 میں جرائم کی تعداد چار لاکھ تھی تو 2022 میں 7لاکھ پہنچ چکی ہے۔ سب سے زیادہ جرائم لاہور شہر میں ہو رہے ہیں۔ لاہور میں 80 سے زائد پولیس سٹیشن ہیں اور 2022 میں ان میں 2لاکھ کیسز رجسٹر ہو ئے ہیں۔ لوٹ مار، قتل، قبضہ گری، چوری، ڈکیتی وغیرہ جیسے سنگین جرائم میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پولیس کے اہم عہدیداران اور سب سے زیادہ نفری لاہور میں تعینات ہے لیکن جرائم میں روزبروز اضافہ حکومت اور پولیس کی کارکردگی پر ایک سوالیہ نشان ہے اور جرائم میں اضافہ کی وجہ سے عوام عدم تحفظ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
انہی جرائم پر قابو پانے کے لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ہر گزرتے دن پولیس کی کمان تبدیل کر دی جاتی ہے، جیسے حال ہی میں ایک انتہائی قابل آفیسر عامر ذوالفقار خان کو آئی جی پنجاب تعینات کر دیا گیا ہے، پولیس ڈیپارٹمنٹ کا ہر افسر جانتا ہے کہ عامر ذوالفقار خان ایک نان کرپٹ آفیسر ہونے کی وجہ شہرت رکھتے ہیں، تبھی اُن سے حکام بالا اچھی خاصی اُمیدیں لگا بیٹھے ہیں۔ گریڈ 21 کے افسر عامر ذوالفقار اس سے قبل ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل اے این ایف تعینات تھے۔ محمد عامر ذوالفقار خان کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان کے انیسویں کامن سے ہے۔ محمد عامر ذوالفقار اس سے قبل آئی جی نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس، آئی جی اسلام آباد پولیس بھی رہ چکے ہیں۔ اسکے علاوہ وہ ایڈیشنل آئی جی آپریشنز پنجاب بھی تعینات رہ چکے ہیں۔ محمد عامر ذوالفقار نے 1991 میں بطور اے ایس پی پولیس سروس پاکستان جوائن کی۔
اُمید ہے کہ اُن کے آنے کے بعد اس محکمے میں بہتری آئے گی، کیوں کہ اُنہوں نے عہدہ سنبھالتے ہی تمام پولیس افسران کو جس انداز میں پیغام دیا ہے وہ اپنی مثال آپ ہے۔ اُن کے مطابق پولیس کی پرانی روایات کو تبدیل کیا جائے گا، انہوں نے کہا فورس کو ایک ہی پیغام ہے قانون اور آئین کے مطابق کام کریں، دنیا میں چلنے والے جدید ماڈل کو فالو کیا جائیگا، مسائل کے حل کے لیے تمام تر کوشش کروں گا۔ وہ خاصے پُرعزم اس لیے بھی دکھائی دے رہے ہیں کیوں کہ اُن کو حکام بالا نے حالیہ دہشت گردی کی لہر کو ختم کرنے کا ٹاسک سونپا ہے، اُن کے مطابق دہشت گردی کے خطرات موجود ہیں، جرائم پر جلد قابو پانے کی کوشش کریں گے، عوام کی خدمت اولین ترجیح ہے، پولیس فورس بھر پور کردار ادا کرے گی۔
وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اُن کا محکمہ کس طرح سے عوام کا استحصال کرتا ہے تبھی وہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ پولیس کا اصل کام دفاتر میں نہیں بلکہ فیلڈ میں ہے، دفاتر سے نکل کر جرائم کنٹرول کیلئے عملی اقدامات کریں۔ جو آفیسر کام نہیں کرے گا اس سے فوری جواب طلبی کی جائے گی، وسائل کی کوئی کمی نہیں، افسران جرائم کنٹرول کے حوالے سے بہتر سے بہتر نتائج دیں۔ ہوائی فائرنگ، ون ویلنگ اور ہلڑ بازی کی روک تھام کیلئے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں اور ون ویلنگ میں ملوث عادی نوجوانوں کے والدین سے قبل از وقت بیانِ حلفی لیے جائیں۔ آئی جی پنجاب نے ہدایت کی کہ آتش گیر مادے، زہریلی شراب سمیت دیگر منشیات کی تیاری، خرید و فروخت اوراستعمال پر سخت ایکشن لیا جائے اور مکروہ دھندے میں ملوث سماج دشمن عناصر کو پابند سلاسل کر کے سخت سزائیں دلوائی جائیں۔ انہوں نے ڈکیتی، رابری اور قتل سمیت کرائم برخلاف پراپرٹی میں اضافے پر تشویش کا اظہار کیا۔ انہوں نے سی سی پی او لاہور سمیت تمام آر پی اوز کو جرائم کنٹرول کی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک دیتے ہوئے ہدایت کی کہ بڑے شہروں میں موٹر سائیکل، گاڑی چوری میں ملوث منظم گینگز کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
بہرکیف اُن کے آنے سے پنجاب پولیس کی کارکردگی میں 10,20 نہیں تو 18,20 کا فرق ضرور پڑے گا۔ کیوں کہ وہ یقینا اس بات کو سمجھتے ہیں عوام کی تھانوں تک بغیر رشوت رسائی اولین ترجیح ہے، اس کے لیے تھانوں میں جو فرنٹ ڈیسک قائم کیے گئے ہیں اُن کو فعال بنانا ہو گا۔ مزید یہ کہ آئی جی پنجاب کو براہِ راست شکایت درج کرانے اور ان شکایات کے ازالے کیلئے 8787ہیلپ لائن مکمل طور پر فعال کرنا ہو گی، کیوں کہ عوام کے مطابق اُن کی شکایات پر کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا۔ اس کے علاوہ ویب بیسڈ کمپلینٹ ریزولیشن سسٹم قائم کیا گیا تھا، اُس کا بھی فالواپ نہیں کیا جا رہا۔ پھر لاہور میں ای چیک پوسٹس کے پائلٹ پروجیکٹ کے تحت شہر کے داخلی راستوں پر قائم ہونے والی یہ ای چیک پوسٹس نادرا، ایکسائز اور کریمنل ریکارڈ آفس سے منسلک ہیں۔ جو مشکوک افراد یا گاڑی کی فوری نشاندہی کرتی ہیں۔ ان چیک پوسٹس کو دیگر اضلاع میں بھی متعارف کرانے اور ان کا فالو اپ کرنے کی ضرورت ہے۔
ان تمام اقدامات کے علاوہ اس وقت جس چیز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے، وہ ہے پولیس کا تفتیشی نظام۔ اسی ناقص نظام تفتیش کی وجہ سے گنہگار لوگ بے گناہ ہو جاتے ہیں اور بیگناہ لوگ سالہا سال تک جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے کے علاوہ مقدمہ بازی پر اٹھنے والے بے جا اخراجات اور اپنی عمر کا بیشتر حصہ عدالتوں میں پیشیاں بھگتانے میں گزار دیتے ہیں۔ اس وقت لاہور پولیس سٹیشنز میں تقریباً 40فیصد تفتیشی آفیسر مڈل اور میٹرک پاس ہیں جو کہ جدید تفتیش کے تقاضوں سے نابلد ہونے کی وجہ سے فرانزک رپورٹ، پوسٹمارٹم رپورٹ، میڈیکولیگل سرٹیفکیٹ بھی نہ پڑھ سکتے ہیں بلکہ جیو فینسنگ اور سی ڈی آر کا تجزیہ کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ان کے علاوہ تقریباً پچاس فیصد تفتیشی افسران جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف ہیں۔
جب تفتیش کا نظام ہی ناقص ہو گا اور کم تعلیم یافتہ اور جدید ٹیکنالوجی سے ناواقف لوگ سنگین جرائم کی تفتیش کریں گے تو اس کا نتیجہ یہی نکلے گا کہ بیگناہ لوگ جیلوں میں ہوں گے، جبکہ جرائم پیشہ افراد شہر میں دندناتے پھریں گے۔ لاہور شہر میں روز افزوں بڑھتے ہوئے جرائم کی سب سے بڑی وجہ ناقص تفتیشی نظام ہے۔ جس پر قابو پانے کے لیے آئی جی پنجاب عامر ذوالفقار خان کو بہت سا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ میرے خیال میں اگر وہ اس پر سب سے زیادہ توجہ دیں گے تو یقینا پنجاب کے عوام تاحیات اُن کے شکر گزار بھی رہیں گے اور اُن کے معترف بھی رہیں گے!