کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی یا جماعت اسلامی سے بندہ نکل بھی جائے تو یہ جماعتیں بندے سے نہیں نکلتیں۔ جیسے ہر شخص کا آبائی شہر یا گاؤں اگر وہ نقل مکانی بھی کر لے تو اس سے آبائی وطن، شہر یا قصبہ نہیں نکلتا۔ اسی طرح گوجرانوالہ سے بندہ نقل مکانی بھی کر لے تو گوجرانوالہ اس میں سے نہیں نکلتا۔ میرے ایک جاننے والے نے کہا کہ ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والے جب بھی بات کرتے ہیں اپنے پرانے علاقے کی بات کرتے ہیں۔ یہاں (پاکستان) کی بات نہیں کرتے۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب میں خود لاہور آ گیا۔ 8 یا 15 دن بعد گوجرانوالہ جاتا تو گفتگو میں تبدیلی کا احساس نہ ہوتا لیکن جب والدین، پاء جی اعظم صاحب اور معظم بھائی جنت مکین ہوئے گوجرانوالہ چھُوٹا تو مجھے احساس ہوا کہ میری گفتگو، پہچان، سوچوں، یادوں میں سے ابا جی کا گھر، دستر خوان اور گوجرانوالہ کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہا۔ کئی سال پہلے امریکہ اس کے بعد عرب اور یورپی ممالک گیا تو بات پاکستان کی ہوتی تھی۔ پاکستان میں ہوں تو پنجاب اور پنجاب میں ہوں تو گوجرانوالہ مگر گوجرانوالہ کی یہ انفرادیت ہے کہ برصغیر کا واحد شہر ہے جو اپنے شہریوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ کھانا پینا اور مہمان نوازی اس کی نمایاں خصوصیات ہیں۔
نئے سال کا جب یہ کالم چھپے گا تو 3 جنوری ہو گی۔ رب کریم تمام انسانوں کے لیے مبارک کرے۔ پچھلے سال کی آخری شب گوجرانوالہ میں میرے عزیز اور دوست سمیع اللہ بٹ کے بیٹے علی بٹ کے ولیمہ کی تقریب تھی۔ مطیع اللہ بٹ المعروف متو پہلوان (مرحوم) سمیع اللہ بٹ جن کو اہل گوجرانوالہ نے ببر شیر کا لقب دے رکھا ہے، انتہائی خوش اخلاق، خوش لباس اور صاحب مطالعہ شخصیت ہیں۔ ایک نیک سیرت شخصیت جناب محمد شفیع بٹ صاحب (مرحوم) کے بیٹے ہیں۔
اس تقریب میں مجھے خصوصی طور پر شامل ہونا تھا۔ تقریب میں شمولیت کے بعد جو سرشاری ہوئی اس کا سحر اب تک مجھے محو کیے ہوئے ہے۔ اس میں لڑکپن اور کالج کے دوست محمد اصغر بٹ جو گوجرانوالہ کی معروف شخصیت جناب محمد اسلم بٹ صاحب (مرحوم) 3 مرتبہ میئر ہوئے اور کوئی ان کے کردار پر انگلی نہیں اٹھا سکتا۔ کمال درجے کے دیانتدار اور غریب پرور انسان تھے۔ بہرحال محمد اشرف بٹ (سابق ایم پی اے) ان کے بھائیوں، رحیم بخش
سلطان والا کے پوتوں، دیگر خاندانی پہلوانوں احمدحقانی میر، اپنے چھوٹے بھائی بابر علی بٹ (سابقہ مسٹر پاکستان) ذکاء الدین ملک مذہبی و سماجی رہنماکو دیکھ کر مل کر دل بہت خوش ہوا۔ ایک خالص محبت اور بھائی چارے والے پرانے پاکستان کے ساتھ گوجرانوالہ میں ملاقات ہوئی۔ پہلوانوں کا شہر اس وجہ سے کہتے ہیں کہ ہر بندہ ورزش ضرور کرتا ہے۔ ضیا الحق کے دور میں کلاشنکوف اور کرپشن بطور پالیسی رائج تھی جس وجہ سے لوگوں کی بہت زیادہ دشمنیاں تھیں، عین اسی دور میں یعنی 1985 کے اوائل میں وکالت شروع کی۔ حافظ آباد بھی گوجرانوالہ میں شامل تھا، اتنے مقدمات کہ آج تصور ممکن نہیں، ان دنوں وطن عزیز کے بہت سے نوجوان ذاتی دشمنیوں جو خاندانی دشمنیوں میں بدل گئیں کی نذر ہو گئے، سب کے سب اچھے خاندانوں سے تعلق رکھتے تھے مگر اس خونیں دور کی بھینٹ چڑھ گئے۔ بہت دکھ ہوتا ہے کہ شہر نامور لوگوں سے بلاوجہ محروم ہو گیا جس کی وجہ بس ایک سیاسی شخصیت سے قربت میں زیادہ دعویداری تھی۔ بات کہاں کی کہاں چلی گئی، سمیع اللہ بٹ کے بیٹے کے ولیمے کی تقریب میں ایک خوبصورت پرانا پاکستان دیکھنے کو ملا۔
معروف شاعر حافظ انجم سعید ایڈووکیٹ، معروف دانشور قانون دان جناب محمد سلمان کھوکھر، میاں محمد افضل ایڈووکیٹ، عبداللہ مجید اور ارشد رؤف، طاہر گل سے ملاقات کے باوجود تشنگی باقی رہ گئی۔ گوجرانوالہ بہت بدل گیا ہے، سب سے خوبصورت رہائشی بستی سیٹلائٹ ٹاؤن مکمل کمرشل ہو گئی بلکہ مینا بازار بن چکی، جیل کے ساتھ فٹ پاتھ گرین بیلٹ پولیس والوں کی کوٹھیاں نگل چکیں، شہریوں کے لیے پیدل چلنا نا ممکن ہو گیا۔ شہر میں ٹریفک کا نظام موت کے منظر سے کم نہ تھا۔ اللہ پناہ، یوں لگتا جیسے شہر کا کوئی والی وارث اور حاکم ہی نہیں ہے۔ یہ مناظر نئے پاکستان کے تھے جبکہ پرانا پاکستان اور گوجرانوالہ صرف اس تقریب میں نظر آیا المیہ یہ ہوا کہ دیہات کے لوگ نقل مکانی کر کے شہر میں آ بسے اور شہر کے لوگ ملحقہ دیہات میں بننے والی نئی رہائشی کالونیوں میں منتقل ہو گئے۔ اب شہری دیہات کے اور دیہاتی شہر کی معاشرت میں بسنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ سیاسی حوالے سے ن لیگ کی مقامی قیادت جہاں جہاں بھی ہے لوگ اس سے خوش نہیں ہیں جبکہ پیپلز پارٹی تو ریاستی قوت سے ختم کی گئی اب وہ دوبارہ سیاسی معاشرت کی ضرورت بن رہی ہے۔ عمران نیازی ان کی چوائس ہے جن کے پاس کوئی چوائس نہیں میاں نوازشریف کو چاہیے کہ ہر جگہ پر اپنی مقامی قیادت میں جدت لائیں پرانے چہروں کو لوگ دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ جماعتوں کو جوہڑ بنا دیا جائے تو اس کے تعفن سے لوگ بیزار ہو جاتے ہیں۔ آپ غور کریں اگر عسکری قیادت بھی طول پکڑ جائے تو ادارہ خود اکتا جاتا ہے اور لوگ بھی تنگ آ جاتے ہیں اگر ان کا سیاست میں کوئی کردار ہو۔ ایوب، یحییٰ جو ایوب خان کا ہی تسلسل تھا۔ ضیا، مشرف، کیانی اور باجوہ صاحبان کی تبدیلی کے بعد ہی ادارہ سرخرو ہوا۔ محترمہ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی آمد نے ان جماعتوں میں نئی روح پھونکی ہے۔ میاں نوازشریف کو چاہئے کہ اپنی جماعت کی مقامی قیادت میں نئے چہرے متعارف کرائیں کیونکہ ووٹ بنک تو نوازشریف، بلاول بھٹو اور جیسا بھی ہے عمران نیازی یا مذہبی جماعتوں کا ہے لہٰذا ان کو مقامی سطح پر لوگوں کے درمیان سے قیادت متعارف کرانی چاہیے یہ پرانی فلمیں اب سیاسی پردہ سکرین سے اتار دیں۔ وقت کی کمی کی وجہ سے حاجی سلطان ٹیپو، چودھری ماجد ایڈووکیٹ، میاں صفدر، حاجی نعیم، آصف مغل صاحبان جو پاء جی اعظم صاحب کے دوستوں میں سے ہیں، بھی ملاقات نہ ہو سکی۔
مجھے اپنے آبائی قبرستان بھی جانا تھا، جہاں میرے والدین، بڑے بھائی معظم بٹ صاحب (سابق چیئرمین جیل روڈ لاہور) پاء جی اعظم صاحب (گوجرانوالہ بروسٹ) آرام فرما ہیں۔ وہاں میری دادی، دیگر احباب بھی ہیں لیکن جو کیفیت ہوتی ہے دنیا میں کوئی زبان، کوئی الفاظ شاید قدرت نے انسانوں کو نہیں دیئے بس قبلہ محمد صادق صاحب چیف کلکٹر کسٹم کی وساطت سے عمر خیام نیشاپوری کی رباعی اس وقت یاد آئی تھی
اسرارِ ازل را نہ تو دانی و نہ من
ویں حرفِ معما نہ تو خوانی و نہ من
ہست از پسِ پردہ گفتگوئے من و تو
چوں پردہ برافتند نہ تو مانی و نہ من
اسرارِ ازل نہ تو جانتا ہے نہ میں، اور یہ حرف معما نہ تو نے پڑھے ہیں نہ میں نے، میری اور تیری گفتگو تو بس پردے کے پیچھے سے ہے اور جب پردہ اٹھے گا تو نہ تو ہو گا اور نہ میں۔
مگر کیا کریں۔ بقول علامہ ڈاکٹر اقبالؒ
ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں