اسلام آباد: وزیر خزانہ شوکت ترین کا کہنا ہے کہ ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے کیلئے شروعات پارلیمنٹیرینز سے ہونی چاہیے جبکہ ارکان پارلیمنٹ ٹیکس کی ادائیگی میں لوگوں کیلئے مثال بنیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے ارکان پارلیمنٹیرینز کی ٹیکس ڈائریکٹری کا اجراء کر دیا۔ اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخزانہ شوکت ترین کا کہنا تھا کہ معاشرے کی ترقی میں ٹیکس کا اہم کردار ہے اور جب تک ٹیکس ریونیو اکٹھا نہیں ہوتا ملک ترقی نہیں کر سکتا جبکہ ٹیکس کلچر کو پروان چڑھانے کیلئے شروعات پارلیمنٹیرینز سے ہونی چاہیے اور ارکان پارلیمنٹ ٹیکس کی ادائیگی میں لوگوں کیلئے مثال بنیں۔
وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ ٹیکس سسٹم میں شفافیت اور آسانی کیلئے اقدامات کر رہےہیں، یہاں جس کی جتنی طاقت ہےوہ ٹیکس چھپاتا ہے اور ہم کرنٹ اخراجات بھی اپنے ریونیو سے پورا نہیں کر پا رہے جبکہ شناختی کارڈ کے ذریعے پتہ لگائیں گے کہ کس کی کتنی انکم ہے، کسی کوہراساں نہیں کریں گے لیکن ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
شوکت ترین نے کہا کہ انکم ٹیکس اور جی ایس ٹی کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہیے اور 22 کروڑ کی آبادی میں سے صرف 30 لاکھ افراد ٹیکس دیتے ہیں جبکہ محصولات میں اضافے کیلئے ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اس سے قبل وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت حکومتی اور پارٹی ترجمانوں کا اجلاس ہوا جس میں ایک نکاتی ایجنڈے پر بات کی گئی۔ وزیر خزانہ شوکت ترین نے اجلاس کو مہنگائی اور معاشی صورتحال پر بریفنگ دی اور بتایا کہ نومبر کی نسبت دسمبر میں مہنگائی میں کمی ہوئی ہے اور آئندہ مہینے مہنگائی مزید کم ہو گی جبکہ عالمی سطح پر اشیا کی قیمتوں میں کمی ہو رہی ہے۔
وزیراعظم نے اجلاس میں معیشت کی صورتحال پر اطمینان کا اظہار کیا اور کہا کہ معیشت کی صورتحال بہتر ہے اور معیشت کے اعدادو شمار عوام کے سامنے رکھے جائیں۔
اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہمیں معیشت تباہ حال ملی جسے کافی حد تک بہتر کیا جا چکا ہے جبکہ آپ کہتے ہیں معیشت بہتر اور اپوزیشن حکومت پر تنقید کرتی ہے تاہم اپوزیشن کو کسی صورت اثر انداز نہ ہونے دیں اور عوام کو حقائق بتائیں۔
وزیراعظم نے ہدایت کی کہ عوام کو آئندہ ماہ مہنگائی میں کمی سے متعلق بھی بتائیں جبکہ ہماری معاشی ٹیم کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آپ کا برانڈ وزیراعظم ہے جو چور ڈاکو نہیں، اپوزیشن اپنے چور، ڈاکو اور کرپٹ رہنماؤں کو تحفظ دیتی ہے۔ اپوزیشن کو کسی صورت حاوی نہ ہونے دیں اور انہیں آئینہ دکھائیں کیونکہ آپ کا لیڈر اپوزیشن کے لیڈروں جیسا نہیں۔