حکومت کی جانب سے منی بجٹ پیش کرتے ہوئے تقریباً 150 اشیا پر سیلز ٹیکس کی مد میں دی گئی چھوٹ کو ختم کر کے اس کی شرح 17 فیصد کر دی گئی ہے جس سے حکومت کو اپنے خزانے میں 343 ارب روپے اضافے کی توقع ہے۔ یوں حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط لینے کے لیے لوگوں کی جیب سے دو ارب ڈالر نکالنے جا رہی ہے۔ پاکستان میں حکومت کی جانب سے منی بجٹ کا پیش کرنا آئی ایم ایف کے مطالبات کا ایک حصہ ہے جنہیں پورا کر کے پاکستان کو ایک ارب ڈالر کی قسط وصول ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ پروگرام کی اگلی قسط کے لیے پاکستان کا کچھ پیشگی اقدامات اٹھانا لازمی ہے، جن میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کاخود مختاری کا بل اور 400 ارب روپے اضافی ٹیکس اکٹھا کرنا ہے۔
ایک عام اور غریب آدمی کا اس منی بجٹ سے متاثر ہونا لازمی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب صنعتی خام پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہو گی تو اس کا لازمی نتیجہ چیزوں کی قیمتوں میں اضافے کی صورت میں برآمد ہو گا۔ اس منی بجٹ کی منظوری کے بعد لوگوں کی قوت خرید میں کمی آئے گی جو ایک غریب آدمی کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے مزید مشکلات کا شکار بنائے گا۔ اس منی بجٹ کو حزب اختلاف کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یقینًا یہ منی بجٹ نہ صرف مہنگائی میں اضافہ کرے گا بلکہ اس کی وجہ سے ملک کی معاشی شرح نمو پر بھی برے اثرات مرتب ہوں گے جس کی وجہ خام مال پر لگنے والا سیلز ٹیکس یا ان پر دی گئی چھوٹ کا خاتمہ ہے جو ملک میں پیداواری عمل کو سست کر سکتا ہے۔اگرچہ وزیر خزانہ نے اس بجٹ سے غریب آدمی کے متاثر ہونے کے امکان کو مسترد کیا ہے، جو درست نہ ہے۔ کیونکہ خام مال مہنگا ہو گا جو پیداواری لاگت میں اضافے کا باعث بنے گا اور صنعت کار عام صارفین کو زیادہ مہنگی مصنوعات بیچے گا جس کے خریدار امیر و غریب سب ہوتے ہیں۔ منی بجٹ میں شیرخواربچوں کے دودھ تک پر اب ٹیکس لگے گا۔بیکری آئٹم ایک عام آدمی ہی استعمال کرتا ہے جس میں امیر و غریب دونوں شامل ہیں، اب اس پر سیلز ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی ہے۔ اسی طرح پیکٹوں میں دستیاب مرچوں اور مصالحوں پر بھی سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کا خریدارامیر کے ساتھ غریب آدمی ہی ہوتا ہے۔ادویات کے خام مال کی درآمد پر 17 فیصد جی ایس ٹی تجویز کیا گیا ہے اور حکومت کہتی ہے کہ یہ قابلِ واپسی ہو گا مگر پاکستان میں ریفنڈز کی تاریخ کو دیکھا جائے تو یہ بہت عرصے بعد ملتے ہیں اور صنعت کار اشیا کی قیمت میں اضافہ کر کے عام آدمی سے قیمت وصول کر لیتا ہے چنانچہ حکومت کی جانب سے لگائے سیلز ٹیکس سے ملک میں دوائیں مزید مہنگی ہوں گی اور اس کا اثر غریب آدمی پر بھی پڑے گا۔ خام مال کے مہنگا ہونے اورزیادہ لاگت کی وجہ سے مصنوعات کی قیمتیں بڑھیں گی جو غریب آدمی کو متاثر کریں گی۔ مہنگی مصنوعات سمگلنگ میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ جس سے پیداواری عمل سست روی کا شکار ہونے کا خدشہ ہے جو روزگار کے مواقع کو کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
پاکستان کی معیشت شدید اندرونی اور بیرونی دباو کا شکار ہے۔ حکومت نے وفاقی بجٹ میں 5800ارب روپے کا ٹیکس ٹارگٹ رکھا تھا تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے اس سال ملک میں ٹیکس آمدنی6200 ارب روپے ہو۔ 400 ارب اضافی منی بجٹ میں سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کر کیاوراس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھا کیا جائے گا۔ اسی طرح 400 ارب اضافی اکٹھا کرنے کے لیے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں بھی اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ حکومت آئی ایم ایف کے مطالبے پر مالیاتی خسارہ دور کرنے کے لیے یہ اقدامات کر رہی ہے تاہم اس سے ملک کا بڑھتا ہوا مالیاتی خسارہ ختم ہوتا مشکل نظر آرہا ہے۔ملک میں شرحِ غربت چالیس فیصد تک جاپہنچی ہے۔افراطِ زر غربت سے بھی بڑا مسئلہ بن گیاہے۔ درآمدشدہ پٹرولیم مصنوعات منہگی ہونے سے ایندھن سے پیدا ہونے والی بجلی اورپیٹرول، ڈیزل سے چلنے والی ٹرانسپورٹ بھی منہگی ہو جاتی ہے، جس سے پیداواری لاگت بڑھ جاتی ہے اور اس عمل کے دوران اگرآمدن ساتھ نہ دے تو غربت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔کاسٹ آف لیونگ اوسطاً پینتیس فی صد بڑھی ہے۔خوراک کے نرخوں میں اڑتیس ماہ میں اڑتالیس فیصد، صحت اورٹرانسپورٹ کے اخراجات میں بتیس فیصد اضافہ ہوا۔کرنٹ خسارہ خطرنا ک حد تک بڑھ چکا ہے۔درآمدات کے مقابلے میں برآمدات بہت کم ہیں۔کرنسی کی قدرکچھ عرصے میں بہت تیزی سے کم ہوئی ہے اور بہ راہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری بہت کم ہے۔ملکی ترقی پر مثبت اثرکے لیے پاکستان کو سالانہ6 ارب ڈالر زکی بہ راہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔مالی سال21 میں پاکستان میں ایف ڈی آئی کی آمد کم ہو کر 1.847ارب ڈالر رہ گئی ہے، جو مالی سال20میں 2.598 ارب ڈالر تھی۔
پائیدار معاشی ترقی اور اس کے اثرات دیکھنے کے لیے پاکستان کو اگلے پانچ سالوں میں ہرسال کم از کم6 بلین ڈالر ایف ڈی کی ضرورت ہے۔اتنے زیادہ ایف ڈی آئی کو ملک میں لانا بہت مشکل امر ہے۔افغانستان کی صورتحال، سیاسی عدم استحکام، پالیسیز کا فقدان اور ان میں عدم تسلسل ، ناقص عمل درآمد اور غیر ملکی سرمایہ کاروں سے نمٹنے کے لیے ریاستی اداروں کا نا مناسب طریقہ سرمایہ کاری کے فروغ میں رکاوٹ ہے۔ہمیں دیگر اقدامات کے ساتھ ایسی پالیسیز بنانا ہو ں گی جو دوسرے ممالک سے بڑے پیمانے پر ایف ڈی کے بہاؤ میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔ چینی سرمایہ کاری کے ساتھ پاکستان کو دیگرممالک سے بھی سرمایہ کاری زیادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، تاکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو6 سے بڑھا کر 10فیصدتک ممکن کیا جاسکے۔ایران ، ترکی ، آسٹریلیا ، کینیڈا ، روس اور سنگاپور جیسے ممالک پاکستان میں آٹو موبائل کی تیاری، زراعت ، توانائی ، اسٹیل اور مالیاتی خدمات میں سرمایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔ سرمایہ کاری بورڈ کو اپنی پسند کے شعبوں میں سرمایہ کاری کے سودوں کو حتمی شکل دینے کے عمل کو تیز کرنا ہوگا۔آنے والے سالوں میں زیادہ سے زیادہ ایف ڈی آئی کو اپنی طرف متوجہ کرنا اس بات پر بہت زیادہ منحصر ہوگا کہ پاکستان کی پوزیشن کتنی اچھی ہے۔ایف ڈی آئی کے حصول کے لیے پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ سے باہر آنا ہوگا جس کے لیے اسے منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی معاونت کے خلاف بین الاقوامی معیار کے مطابق کارروائی کرنا ہوگی اور بھرپور انداز میں ٹاسک فورس کی جانب سے طے شدہ باقی ماندہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔سرمایہ کاروں کااعتماد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کو یہ یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی ٹیکس پالیسی مطابقت کی حامل ہو، ٹیکسوں کا موثر نظام ہو اور ایک مستحکم سیاسی ماحول رکھتا ہو۔ خاص کر ٹیکس پالیسیز کو ایک سے دوسری حکومت کے درمیان زیادہ مطابقت کا حامل ہونا چاہیے۔ انکم اور سیلز ٹیکس میں اضافے کی شکل میں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنے کے بجائے دولت مند طبقے کو ٹیکس کے جال میں لانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کازرعی شعبہ ملکی معیشت میں اہم حصہ ڈالنے کے باوجود سب سے کم ٹیکس دیتا ہے اس پر مناسب ٹیکس لاگو کیے جانے چاہییں۔
موجودہ نظام میں کئی سطحوں پربنیادی نوعیت کی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے ادارہ جاتی ہم آہنگی اورنظام کے استحکام کی زیادہ ضرورت ہے جس کے لیے فضا سازگار بنانے کی اشدضرورت ہے۔ پاکستان کو اپنی بجٹ کی ترجیحات کا دوبارہ جائزہ لینا ہوگا۔ بجٹ کاسب سے زیادہ حصہ تعلیم و تحقیق کی سہولتوں کی فراہمی پر خرچ ہونا چاہیے اور مستقبل میں ایف ڈی آئی کی خاطر اس کی ترویج کی جانی چاہیے۔اگر پاکستان کو درست سمت اختیار کرنی ہے، خود کو داخلی اور خارجی، دونوں محاذوں پرایک ذمے دار معاشرے کے طورپر پیش کرناہے اورترقی اورخوش حالی کی منزل حاصل کرنی ہے تو ہمیں ایک نئے کردار اور فکر کی طرف توجہ دینی ہوگی۔