گئے سالوں میں عمران خان پر ووٹ کو بے توقیر کر کے، ڈیل سے اقتدار میں آنے کا الزام عائد کرنے والے نئے سال میںخود ڈیل پر شاداں ہیں،زبان سے کوئی اقرار نہیں کر رہا مگر (ن) لیگی رہنماؤں کی بدن بولی بتا رہی ہے کہ شہباز شریف مائنس نواز شریف ڈیل کر چکے ہیں ، اب ان کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کے نعرے سے دلچسپی ہے نہ آئین کی حرمت سے کوئی ناطہ اور نہ ہی جمہوریت سے کوئی غرض ہے،اقتدار مل جانے کی امید میں ڈیل پر سب خوش و خرم ہیں،اور اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اب ڈھیل کی باتیں ہو رہی ہیں،سیاست کے جادوگر اور مفاہمت کے بادشاہ کہلانے والے آصف زرداری بھی ’’امید‘‘ سے ہیں،ڈیل کرنے والے جو بھی ہیں ن لیگ ان کا تذکرہ کر رہی ہے نہ پیپلز پارٹی ان کی طرف کوئی اشارہ کر رہی ہے مگر دونوں، ڈیل کرنے والی قوتوں کو حسب روایت بیوقوف بنانے کی کوشش میں مصروف ہیں،عوام کا سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ ووٹ کو عزت دینے والے اب جمہوریت کو پامال، ووٹ کو بے توقیر کر کے کس کیساتھ ڈیل کی بغلیں بجا رہے ہیں؟
خواجہ آصف،احسن اقبال،رانا ثناء اللہ،قبیل کے مسلم لیگی ، ماضی قریب میں شہباز شریف کو پارٹی ہیڈ کے طور پر بھی قبول کرنے پر تیار نہ تھے مگر ڈیل کی امید بندھتے ہی نواز شریف کی جگہ مریم نواز کو لیڈر بنانے کے دعویدار شہباز شریف پر صاد کر کے خوشی کا اظہار کر رہے ہیں اور نواز شریف کیلئے ڈھیل مانگ رہے ہیں،ادھر آصف زردای جو پی ڈی ایم کی تحریک کے آغاز سے ہی خود کو’’اچھا بچہ‘‘ ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں،بلاول بھٹو کا آئندہ الیکشن کے بعد مرکز اور پنجاب میں حکومت سازی کا دعویٰ بلا وجہ نہیں،اسی امید پر کچھ عرصہ قبل انہوں نے پنجاب میںڈیرے لگائے تھے اور اب 5جنوری سے پھر پنجاب بھرکے دورہ پر آرہے ہیں،پیپلز پارٹی کے حلقوں کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف اور ن لیگ کے متعدد الیکٹ ایبلز اس موقع پر پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے یا ٹکٹ کی یقین دہانی کے بعد کسی مناسب ٹائم پر شامل ہوں گے ،یہ آنیاں جانیاں بلا وجہ نہیں ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے ‘‘ ایک تاثرکے پی سے بھی ہے کہ فضل الرحمٰن سے بھی کچھ معاملات طے پا چکے ہیں جس کے بعد وہ ن لیگ کی قیادت سے شاکی اور نالاں دکھائی دینے کیساتھ لانگ مارچ اور دھرنے کی سیاست کو بتدریج لپیٹ رہے ہیں،غیر مصدقہ ذرائع کے مطابق کے پی کے میں حالیہ بلدیاتی الیکشن میں بہترین کاکردگی کے بعد وہ بھی صوبے کی باتیں کر رہے ہیں۔
یہ بات کوئی خفیہ راز نہیں کہ ن لیگ کا قیام اور اس کا بار بار اقتدار میں آنا اسٹیبلشمنٹ کا ہی مرہون منت رہا ہے مگر ہر بار نواز شریف نے اپنی پیٹھ تھپکنے والوں کا ہی ہاتھ جھٹکا جس کے ن لیگ کی قیادت بے اعتبار ٹھہری اور اب کوئی ان پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں،شہباز شریف کو ان کی ماضی قریب کی بھائی اور بھتیجی کے مخالف پالیسی اپنانے کی وجہ سے قابل قبول تصور کیا جا رہا ہے مگر یہ بات بھی ریکارڈ پر ہے کہ شریف فیملی جب کسی شکنجے میں پھنستی ہے تو ہر بات پرآمین کہتی ہے مگر نجات ملتے ہی اپنی دیرینہ روش اختیار کر لیتی ہے،شہباز شریف اگر چہ خود کو قابل قبول بنانے کیلئے ہر شرط پر سر تسلیم خم کر رہے ہیں مگر بے اعتباری کا ٹھپہ ان پر بھی ہے،خاص طور پر ڈیل کے آغاز کے دنوں میں جب نواز شریف کو جیل سے نکالنا مقصود تھا تو واحد راستہ بیماری کے بہانے بیرون ملک بھیجنا تھا اس و قت شہباز شریف نے گارنٹی دی کہ وہ چھہ ہفتہ میں واپس آکر عدالت پیش ہونگے مگر آج تک واپس نہ آئے اور شہباز شریف نے اب مؤقف بدل لیا اور کہا کہ علاج کرا کے واپس آئیں گے مگر عدالتی حکم کے مطابق نواز شریف کے علاج اور بیماری کی رپورٹ بھی عدالت میں جمع نہ کرائی گئی،یہ ڈیل نہیں تو کیا تھی کیا ایسی کوئی نظیر عدالتی تاریخ میں ملتی ہے کہ ایک ثابت شدہ سزا یافتہ مجرم کو50روپے کے اسٹامپ پر ضمانتی بیان پر بیرون ملک بھیج دیا جائے؟
ایک افواہ یہ بھی ہے کہ آئندہ الیکشن میں کامیابی یقینی بنانے کیلئے مسلم لیگ (ن)، ق لیگ سے پنجاب میں سیٹ ایڈجسمنٹ کرنے کو تیار ہے اس کیساتھ مرکز میں بھی حصہ دینے کی باتیں سننے میں آرہی ہیں،اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگلی حکومت مخلوط حکومت ہو، تاہم مخلوط حکومت کی تجویز قابل عمل دکھائی نہیں دیتی کہ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی اکثریت ن لیگ پر اعتما د کرنے کو تیار نہیں،میثاق جمہوریت کے بعد نواز شریف کی وطن واپسی بینظیربھٹو کی مرہون منت تھی مگر نواز شریف نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے کندھوں پر بندوق رکھ کر زرداری حکومت کو مشکلات سے دوچار رکھا،اور یہ بات پیپلز پارٹی کے رہنماء فراموش کرنے پر خود کو آمادہ نہیں پاتے۔
آصف زرداری اور شہباز شریف کی نواز شریف اور مریم نواز کے بر عکس مفاہمت اور احتساب سے نجات کی مشترکہ کوششوں کے درمیان نواز شریف کی مقدمات سزاو ٔں سے فراغت بھی شامل ہے مگر ان کی نا اہلی کے خاتمے پر شائد دونوں کا اتفاق نہیں،اس سیاسی مار دھاڑ،آپا دھاپی اور اٹھا پٹخ میں تحریک انصاف بھی خواب غفلت کا شکار نہیں بلکہ اس کے ماہرین دونوں پارٹیوں کے گٹھ جوڑ سے ابھرنے والے منظر کا بخوبی جائزہ لے رہے ہیں اور جیسے ہی کچھ واضح طور پر سامنے آیا تحریک انصاف اپنے پتے شو کرے گی،کے پی کے میں بلدیاتی الیکشن کے بعد پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کی تیاری ہے،اس کیساتھ جون میں سالانہ بجٹ بھی حکومت کیلئے امتحان ہے،اس امتحان میں اگر حکومت سرخرو ہو گئی اور عوام کو مہنگائی کے حوالے سے ریلیف دیدیا توحکومت کی مشکلات میں کمی آسکتی ہے،حکومتی ذرائع کھل کر تو نہیں مگر ڈھکے چھپے الفاظ میں قبل از وقت الیکشن کی بات کرتے دکھائی دیتے ہیں،اسی بنیاد پر بلاول بھٹو پنجاب کا میدان سر کرنے کیلئے لاہور میں ڈیرے لگانے کا اعلان کر چکے ہیں،حکومت اگر اپنی آئینی مدت پوری کرتی ہے تو عوام کی اکثریت ان کی کارکردگی کو سامنے رکھ کر ووٹ دے گی اور حکومتی کارکردگی ایسی قابل رشک نہیں کہ ان کو عام شہری کا ووٹ ملے تو یقینی ہے کہ حکومت کوئی ایسی چال چلے کہ ہمدردی کا ووٹ بھی ملے اور عوام کو زیادہ سوچ بچار کا موقع بھی نہ ملے تو وہ حیرت انگیز کام کیا ہو سکتا ہے؟حکومت قبل از وقت الیکشن کا اعلان کر سکتی ہے،وزیر اعظم خود کو اعتماد کے ووٹ کیلئے پیش کر سکتے ہیں،وزیر اعظم استعفیٰ دیکر نئے قائد ایوان کیلئے انتخاب کی بھی پیشکش کر سکتے ہیں،دیکھیں سال2022ء کیا گل کھلاتا ہے ،مگر ہیلتھ کارڈ کی صورت میں حکومت کے پاس ایک ترپ کا پتہ موجود ہے اگر اس کو طریقے سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے۔