مرکز، دو صوبوں پنجاب، خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان و کشمیر میں اپنی حکومتوں کے ہوتے ہوئے پنجاب اور خیبرپختونخوا کے متعدد ضمنی انتخابات میں شکست کے بعد اب خیبر پختونخوا کے حالیہ بلدیاتی انتخابات میں تمام تر حکومتی ذرائع وسائل جن میں ترقیاتی فنڈز، پراجیکٹس، نوکریوں کا جھانسہ ،افسر شاہی کی حمایت کے باوجود شکست میں پی ٹی آئی کو نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کہ عمران خان اور ان کی جماعت عوام میں کتنی غیر مقبول ہو چکی ہے ،بلدیاتی انتخابات میں جے یو آئی کی واضح برتری جوانہیں پہلے مرحلے میں حاصل ہوئی ہے عمران خان کا اپنی جماعت کی شکست پر اپنے تھنک ٹینکس کو بلانا ،وزیر اعلی سے باز پرس کرنا ،وزراء سے سوال کرنا کہ ہمارے ہارنے کی وجہ کیا ہے، یہ بات واضح کرتی ہے کہ انہیں یا تو اپنی حکومت کی کارکردگی کاعلم نہیں ہے یا وہ بھولے بننے کی کوشش کر رہے ہیں بصورت دیگر ان کے وزیروں ،مشیروں کی فوج ظفر موج نے انہیں اندھیرے میں رکھا ہوا ہے وہ انہیں سب اچھا کی رپورٹ دیتے رہتے ہیں جبکہ حالات بائیس کروڑ عوام کے اس قدر خراب ہوچکے ہیں کہ اس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ،میں اپنے دسمبر 2021 کے بجلی بل کو دیکھ رہا تھاجوکہ اس سال ڈبل ہوگیاہے، سردیوں میں صارف سکھ کا سانس لیتے ہیں کیونکہ بجلی کا استعمال زیادہ ہوتانہیں ہے ،اس لئے بل سردیوں میں بہت کم آتے ہیں لیکن آئی ایم ایف کی تابع مقروض حکومت نے یہ آسانی بھی عوام سے چھین لی ہے ،(ایف پی اے ) فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر گزشتہ سال 140 یونٹ کا بل جو تین ہزار تھااب وہ تقریباًایف پی اے کے نام پرڈبل ہوگیا ہے جبکہ مبینہ چور حکمرانوں کے دور میں یہ بل صرف ایک ہزار روپے سے بھی کم تھا ،دیگر اشیاء ضرورت کے نرخ آسمان کو چھو رہے ہیں گیس ،پیٹرول ،ڈیزل کے نرخوں میں آئے روز اضافے نے عوام کی کمرتوڑ کر رکھ دی ہے، گزشتہ ستر سال میں چور حکمرانوں نے پچیس ہزار ارب روپے کا قرض لیا لیکن مبینہ صادق وامین حکمرانوں نے تین سال میں پینتالیس ہزار ارب روپے تک پہنچادیا ،پیٹرول اسی روپے سے ایک سو سینتالیس روپے لیٹر ،ڈالر 105 سے 177 روپے ،چینی 55 روپے کلو سے 105 روپے کلو ،آٹا 35 روپے کلو سے 70 روپے کلو ،سونا پچاس ہزار روپے تولہ سے ایک لاکھ بیس ہزار روپے فی تولہ ،ڈی اے پی کھاد 35 سوروپے کی بوری سے سات ہزار روپے فی بوری ،ادویات کی قیمتوں میں پانچ سو گنا اضافہ ،بجلی آٹھ روپے فی یونٹ سے تیس روپے یونٹ اور اب ایف پی اے کے اضافہ کے بعد ساٹھ روپے یونٹ میں صارف کو پڑرہی ہے، سی ڈی سیونٹی ہنڈا موٹرسائیکل جو کہ سترہزار روپے کا تھا اب 95 ہزار کا ہوگیا ،اسی طرح گاڑیوں کی قیمتوں میں لاکھوں روپے کا اضافہ ہوچکا ہے،بے روزگاری تین فیصد سے سولہ فیصد اور افراط زر میں بے پناہ اضافہ ،تعلیم کا حصول متوسط طبقے کے لئے ناممکن ہوگیا ،کیونکہ کتب ،ٹیوشن فیس ،سکول فیس ادا کرے تو دووقت کی روٹی میں سے ایک وقت بھوکا رہنا پڑے گا ،اس لیے میں کتنے گھروں کو جانتا ہوں جنہوںنے اپنے بچوں کو سکول سے اٹھالیا ہے ،یوں ہماری شرح خواندگی جو پہلے ہی خطرناک حد تک کم تھی اب مزید کم ہوگئی ،ایک طرف شرح خواندگی کم ہورہی ہے تو دوسری جانب تعلیم اور یونیورسٹی ،کالجوں کا معیار آئے دن گر رہا ہے ،ہماری درسگاہیں حکومتی امداد کی بندش کے باعث زبوں حالی اور خسارے کا شکار ہیں ،اب تو لنڈے کے کپڑوں پر بھی جو کہ غریبوں کا سہارا ہیںپر ٹیکس لگایا جارہا ہے ، منی بجٹ میں 365 ارب روپے کا ٹیکس لگانے کا پروگرام ہے ،جس سے مہنگائی ،بھوک وافلاس کے مزید باب کھلیں گے، کرپشن اور بیڈگورننس اپنی انتہا کو چھو رہی ہے ،انصاف کا حصول آئے روز مشکل سے مشکل ہوتا جارہاہے ،پھر بھی عمران خان اپنی ہار کی وجوہات ڈھونڈ رہے ہیں تو اسے ہم عوامی مسائل ،پریشانیوں ،مہنگائی سے آنکھیں چرانا کہہ سکتے ہیں، عمران خان جو کہ گزشتہ ساڑھے تین سال سے عوام کو گھبرانا نہیں کا بھاشن دے رہے ہیں کو اب کے پی کے کے عوام کی طرف سے یہ پیغام ہے کہ اب وزیر اعظم صاحب آپ نے بھی گھبرانا نہیں ہے کیونکہ آپ کی مثال کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا دو آنے، والی ہے ،عوام آپ سے پرانا پاکستان واپس مانگ رہے ہیں ،نئے پاکستان کا بیڑا غرق اور چولہے ٹھنڈے کردیئے ہیں ،وہ تبدیلی سرکار سے مکمل مایوس ہوچکے ہیں اگر بلدیاتی الیکشن کا دوسرا مرحلہ بھی اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے بغیر ہوا تو نتائج اس سے بھی برے تبدیلی سرکار کے لئے ہوں گے ،اگر پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرائے گئے تووہاں تو ویسے ہی پاکستان مسلم لیگ ن نے تبدیلی سرکار کا دھڑن تختہ کردینا ہے ،کے پی کے کے بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں اسٹیلشمنٹ نے سو فیصد غیر جانبدارانہ رویہ اپنایا جس سے ان کے قد کاٹھ میں اضافہ ہوا، امید ہے وہ آئندہ بھی ایسا ہی کردار ادا کرکے عوام کو جمہوری طریقے سے اپنے نمائندے منتخب کرنے کا موقع فراہم کریں گے ،الیکشن کمیشن نے تمام تر حکومتی وزراء کی کھلم کھلا مداخلت ،جلسوں میں شرکت ،ترقیاتی فنڈز کا بے دریغ استعمال، نوکریوں کے اعلان، انتقامی کارروائیوں کے جواب میں اکا دکا اضلاع میں صرف نوٹسزاور جرمانوں سے کام چلایا جبکہ حکومتی وسائل کے استعمال کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی اگر کی جاتی تو تبدیلی سرکار کے لئے نتائج اس سے بھی زیادہ برے ہوتے ۔