بہاولپور: پی ڈی ایم کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا حکومت نے ناکام پالیسیوں کے نتیجے میں کشمیریوں کو مودی کے جبر وستم پر چھوڑ دیا ہے اورجعلی سرکار نے کشمیر کو بیچ دیا ہے کیونکہ ابھی ان کی حکومت نہیں آئی تھی اور عمران خان نے کشیمر کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا پلان بتا دیا تھا ۔ عمران خان نے کہا تھا کہ دعا کریں مودی جیت جائے تو کشمیر کا فیصلہ ہو جائے گا لیکن جب مودی جیت گیا تو اس نے کشمیر پر قبضہ کر لیا ۔
انہوں نے کہا میں اعلان کرتا ہوں کہ 21 جنوری کو کراچی میں اسرائیل نامنظور ریلی نکالی جائے گی اور ساری دنیا کو پیغام دیا جائے گا کہ فلسطین پہلے اور کی آزادی کی بات پہلے ہو گی اور یہ اعلان پاکستان کی سرزمین سے ہو گا جس کو ساری مسلم امہ فالو کرے گی ۔ پی ڈی ایم کے سرہراہ نے تحریک انصاف پر الزام لگایا کہ فارن فنڈنگ کیس دنیا بھر سے پی ٹی آئی کو ملنے والے پیسے کی خورد برد کا کیس ہے اور ان کو سب سے زیادہ پیسہ اسرائیل سے آیا اور یہ قادنیوں کے اینٹ ہیں لیکن ہم اسرائیل کو کسی صورت بھی تسلیم نہیں کریں گے اور سب سے پہلے بیت المقدس کو آزاد کروائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان نے کہا ایک طرف بھارت ہمارا مستقل دشمن ہے دوسری طرف چین نے پاکستان میں ستر ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور سی پیک کے ذریعے پاکستان کو پوری دنیا کا تجارتی راستہ بنا دیا لیکن یہ حکومت اس ایجنڈے پر لائی گئی ہے کہ چین کی سرمایہ کاری کو ناکام کیا جائے کیونکہ موجودہ صورتحال کو دیکھا جائے تو اس حکومت نے معیشت کا بیڑہ غرق کردیا ہے ۔
انہوں نے خطاب میں مزید کہا افغانستان ہم سے منہ موڑ چکا ہے جبکہ ایران بھارت کے کیمپ میں چلا گیا ہے اور پاکستان خطے میں تنہا رہ گیا ہے ۔ بھارت بنگلہ دیش، ملائشیا، انڈونیشیا اور سری لنکا کی معیشت اوپر جا رہی ہے اور اس پورے ماحول میں صرف پاکستان ہے جس کی معیشت ڈوب چکی ہے۔
انہوں نے کہا پی ڈی ایم کے سربراہی اجلاس میں متحد ہو کر فیصلے کیے تو ان میں صف ماتم بچھ گئی اور ان کو لگ رہا تھا کہ اس اجلاس کے بعد حکومت نے سوچا پی ڈی ایم ٹوٹ جائے گی لیکن پی ڈی ایم قومی تحریک ہے اور اس پلیٹ فارم پر سب متحد ہیں۔ ووٹ چوری کر کے حکومتیں نہیں چلا کرتیں اب اس ناجائز حکومت کے جانے کا وقت آ گیا ہے اور کٹھ پتلی تم بیساکھی پر چلنے والے ہو اور تمہیں چلنا بھی نہیں آیا۔
پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں ہے اور ہمارا ایک موقف ہے کہ حکومت کو جانا ہو گا اور دوبارہ الیکشن ہو گا جبکہ حکمت عملی میں تبدیلیاں کرتے رہیں گے۔