لاہور : آج پاکستان کے خالق، چودھری رحمت علی کی برسی منائی جا رہی ہے، جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے آزادی کی آواز بلند کی اور اپنے تصورِ پاکستان کو حقیقت میں بدلنے کے لیے بھرپور جدوجہد کی۔
چودھری رحمت علی نہ صرف ایک زیرک سیاست دان تھے بلکہ مسلمانانِ ہند کے خیرخواہ بھی تھے، جنہوں نے اپنے قول و فعل، قلم اور قانون کے ذریعے آزادی کا پیغام دیا۔ چودھری رحمت علی 16 نومبر 1897ء کو مشرقی پنجاب کے ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے۔ 1915ء میں بزمِ شبلی کے اجلاس کے دوران انہوں نے پہلی بار ہندوستان کے شمالی علاقوں کو ایک مسلم ریاست میں تبدیل کرنے کی تجویز پیش کی۔ اس وقت سے ہی ان کے ذہن میں ایک علیحدہ مسلم ریاست کا تصور جڑ پکڑ گیا تھا۔
1918ء میں اسلامیہ کالج لاہور سے بی اے کرنے کے بعد چودھری رحمت علی نے اخبار ’’کشمیر گزٹ‘‘ سے اسسٹنٹ ایڈیٹر کے طور پر کام شروع کیا۔ 1928ء میں ایچی سن کالج لاہور میں لیکچرار مقرر ہونے کے بعد وہ انگلینڈ روانہ ہوئے اور کیمبرج یونیورسٹی سے سیاسیات اور قانون میں اعلیٰ ڈگری حاصل کی۔
چودھری رحمت علی کا سب سے اہم کارنامہ 28 جنوری 1933ء کو اس وقت سامنے آیا جب انہوں نے دوسری گول میز کانفرنس کے موقع پر اپنی مشہور کتابچہ ’’ابھی یا کبھی نہیں‘‘ شائع کیا۔ اس کتابچے میں انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا، اور اسی روز مسلمانانِ برصغیر پہلی بار لفظ ’’پاکستان‘‘ سے آشنا ہوئے۔ اس کتابچے نے برطانیہ اور ہندوستان بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز کیا اور آخرکار 14 اگست 1947ء کو مسلمانوں کو ان کے خواب کی تعبیر مل گئی۔
چودھری رحمت علی کا انتقال 3 فروری 1951ء کو انگلینڈ کے شہر کیمبرج میں ہوا، جہاں وہ نمونیا کے باعث خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ کیمبرج کے قبرستان میں آسودہ خاک ہیں، لیکن ان کی قربانیوں اور ان کے تصورِ پاکستان کی بنیاد پر بننے والی ریاست آج دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔