سٹیٹ بنک پر سینیٹ میں قانون سازی مسترد کرنے کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن پر مشتمل اپوزیشن نے بلند بانگ دعوے کیے اور اپنی واضح عددی برتری کے پیش نظر آسمان سر پر اٹھا رکھا تھا کہ اب نہیں تو کبھی نہیں۔ لگتا تھا کہ وطن عزیز کو سب سے بڑا مسئلہ یہی درپیش ہے اور اگر اپوزیشن نے حکومت کو قانون سازی میں شکست دے دی تو یہی تمام مسائل کا حل ہو گا۔ لیکن اپنی عددی اکثریت کے باوجود اپوزیشن کو اپنوں کے ہاتھوں ہی منہ کی کھانا پڑی اور قانون سازی ہو گئی۔
جیسا کہ قارئین جانتے ہیں کہ ازل سے پارلیمانی جمہوری نظام حکومت میں عددی برتری ہی پیمانہ رہی ہے اور چاہے فرق ایک ووٹ کا ہو یا درجنوں کا کسی بھی مسئلے پر جیت ہار کا فیصلہ اسی پر ہوتا ہے۔ جب بھی کسی معرکہ پر رن پڑتا ہے تو پارلیمانی جمہوری نظام میں جملہ فریقین کی خواہش ہوتی ہے کہ ہار جیت سے قطع نظر اپنی عددی حاضری ہر طور پر متعلقہ ایوان میں یقینی بنائیں کیونکہ یہی جمہوریت کا حسن ہے۔ لیکن اگر ذاتی مفاد یا کوئی پس پردہ مک مکا ہو جائے تو یہ اکثریت بھی اقلیت میں بدل جاتی ہے۔ یہی سب کچھ سینیٹ میں اپوزیشن کے ساتھ ہوا جہاں سٹیٹ بینک پر قانون سازی کے دوران عددی برتری کے باوجود اس بل پر اپوزیشن کو شکست ہوئی اور حکومت قانون سازی میں سرخرو ہوئی۔ اس بل کے میرٹ اور ڈی میرٹ پر لمبی بحث ہو سکتی ہے لیکن اس کو پھر کسی وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
اب آئیں سینیٹ میں قانون سازی کی طرف۔ اس سبکی کی بڑی وجہ پیپلز پارٹی کے اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے قریباً دس سینیٹ ممبران کا اس اہم موقع پر پراسرار طور پر غیر حاضر ہونا ہے۔ اب ان کی اس ادا کو لوٹا گری نہ کہوں تو کیا کہا جائے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس حمام میں سب ننگے تھے اور ان گمشدہ سینیٹرز میں مسلم لیگ ن، پییلز پارٹی، جے یو آئی سمیت دیگر شامل تھے۔ اس انجینئرڈ گمشدگی میں میرے کانوں میں ماضی میں گلیوں میں گونجنے والی وہ آوازیں بھی پڑ رہی تھی ’’پہانڈے قلعی کرا لو، پرانے نویں کرا لو‘‘۔ سینیٹ میں ہونے والے اس کھیل میں بھی کچھ لوٹوں کو قلعی کرا کر پھر سے نیا کر دیا گیا ہے کہ ہم دستیاب ہیں۔ اس میں مزید شرمناک بات یہ ہے کہ اس بار ان کے بروکرز یعنی
سیاسی پارٹیاں بھی ان کی سہولت کار بنیں۔
اس انجینئرڈ شکست کے لیے لفظ شرمناک بہت چھوٹا ہے لیکن افسوس ہے کہ کوئی بھی شرمندہ ہونے کے بجائے اپنی اپنی تاویلیں پیش کر رہا ہے۔ اپوزیشن لیڈر نے سینیٹ میں تقریر کے دوران اپنے استعفے کا اعلان کر دیا لیکن ان کا یہ اعلان کسی سیاسی شعبدہ بازی سے کم نہ تھا۔ کیونکہ استعفیٰ چیئرمین سینیٹ کو پیش کرنے کے بجائے انہوں نے اس کے لیے اپنی پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو کا انتخاب کیا جو کہ اسے مسترد یا منظور کرنے کے مجاز ہی نہ تھے۔ گیلانی صاحب نے اس استعفے کا اعلان کر کے گونگلوؤں سے مٹی تو جھاڑ دی لیکن ان کو کلین چٹ ملنے کے بجائے وہ ڈیل کے اس کیچڑ میں مزید لتھڑ گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ درپردہ گھناؤنے کھیل کو بھی بے نقاب کر دیا کہ ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ۔ شاہ محمود قریشی صاحب نے گیلانی صاحب کے استعفے کو محض تماشا قرار دے دیا اور وفاقی وزیر اطلاعات فواد چودھری نے گیلانی صاحب کے استعفے کے بجائے بلاول بھٹو کے استعفیٰ کا مطالبہ کر دیا۔
دیکھا جائے تواس حوالے سے سب سے بڑی ذمہ داری اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی پر آتی ہے جن کے بطور اپوزیشن لیڈر انتخاب پر ہی سوالیہ نشان کھڑے تھے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ مسلم لیگ ن نے تو پیپلز پارٹی کو حکومت کی بی ٹیم قرار دے دیا تھا مسلم لیگ ن اور جے یوآئی نے یوسف رضا گیلانی کا بطور اپوزیشن لیڈر انتخاب جمہوریت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکا قرار دے دیا تھا لیکن سٹیٹ بنک کے بل پر قانون سازی کے وقت انجینئرڈ غیر حاضری کے ذریعے ان تینوں جماعتوں نے وہ ٹیکا اپنے ماتھوں پر بھی مل لیا۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر کا رونا صحیح تھا کہ پارٹی قیادت انہیں سیاسی اور میڈیا کے محاذ پر دھکیل دیتی ہے لیکن درون خانہ کھیل کچھ اور ہی چل رہا ہوتا ہے۔
مسلم لیگ ن کے کچھ سینیٹرز کا مجھ سے گفتگو کے دوران کہنا تھا کہ سینیٹ میں ایک اہم بل پر اگر ان کی پارٹی قیادت نے اپنے تمام سینیٹرز کی حاضری یقینی نہ بنانے کا تکنیکی مک مکا کر لیا ہے تو پھر کل کوئی بھی رکن اسمبلی یا سینیٹر اس قسم کا کھیل کھیل سکتا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس تاریخی مک مکا کے بارے میں مسلم لیگ ن کے پروفیسر سمیت کوئی بھی کسی سینیٹر پر ذمہ داری ڈالنے یا لینے کو تیار نہیں بلکہ سارا الزام دوسری جماعتوں پر ڈالنے میں پیش پیش رہے۔ جے یوآئی کے سینیٹرز تو اس انجینئرڈ غیر حاضری پر بات ہی کرنے کو تیار نہ تھے۔ خیر سے یہ معرکہ تو اوپن ووٹ کا تھا اور اگر خفیہ رائے شماری ہوتی تو چیئرمین سینیٹ کے انتخاب اور قبل ازیں عدم اعتماد پر اپوزیشن اس کا بھی مزا چکھ چکی ہے۔ میرا مدعا یہ ہے کہ اپوزیشن بڑے بڑے دعوے کرنے کے بجائے پہلے اپنے اردگرد نظر دوڑائے کہ آخر اس کے منتخب نمائندے اہم ترین مواقع پر ان سے بے وفائی کیوں کر جاتے ہیں۔ جبکہ ایک سوچ یہ بھی ہے کہ یہ بے وفائی کرائی گئی ہے اور سب کچھ پہلے سے طے شدہ تھا جو کہ زیادہ خطرناک ہے۔ اگر ایسا ہے تو اپوزیشن نے وقتی فائدے کے لیے ووٹ کو عزت دو کے بیانیے کو اپنے ہی پاؤں تلے روند ڈالا۔ اصل میں عوام ووٹ دیتے بیوقوف بنتے ہیں بلکہ اب تو منتخب پارلیمینٹیرین بھی سیاسی جماعتوں کے ہاتھوں بے وقوف بن جاتے ہیں یا بنا لیے جاتے ہیں۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ سیاست اگر دھندا ہے تو گندا ہے۔
قارئین کالم کے بارے میں اپنی رائے اس وٹس ایپ 03004741474 پر بھیجیں۔