سینٹ آف پاکستان کے سو رُکنی ایوان میں بظاہر اپوزیشن کو کب سے عددی برتری حاصل چلی آرہی ہے۔ اس وقت بھی حکومتی اتحاد کے 43سینیٹرز کے مقابلے میں اپوزیشن کے سینیٹر زکی تعداد 57 شمار کی جاتی ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ سینٹ میں جب بھی کسی اہم موقع پر رائے شماری ہوتی ہے یا کسی قانون سازی کے لئے ووٹنگ کی ضرورت پڑتی ہے تو حکومت کو عددی بر تری حاصل نہ ہونے کے باوجود کبھی ناکامی کا سامنا نہیں کرنا پڑاہے۔وہ اپوزیشن کے مقابلے میں زیادہ ووٹ لے کر کامیابی سے ہم کنار ہوتی رہی ہے۔ اگست 2019 میں موجود چیئر مین سینٹ جناب صادق سنجرانی جو اس وقت بھی چیئر مین سینٹ تھے کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی تو اپوزیشن جماعتوںسے تعلق رکھنے والے 64 سینیٹر زنے کھڑے ہو کر تحریک عدم اعتماد کے پیش کرنے کی حمایت کی لیکن اسی دن خفیہ رائے شماری کا وقت آیا تو عدم اعتماد کے حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد گھٹ کر 45 ہوچکی تھی اورتحریک عدم اعتماد کی مخالفت میں پڑنے والے ووٹ بڑھ کر 50 ہوچکے تھے جبکہ چار ووٹ مسترد بھی ہوگئے تھے۔مارچ2021 میں سینٹ کے نصف ارکان کا دوبارہ انتخاب ہوا تو قواعد کے مطابق چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کے عہدوں کا ازسرِنو انتخاب بھی ضروری تھا۔ حکومتی اُمیدوار جناب صادق سنجرانی کے مقابلے میں سید یوسف رضا گیلانی چیئر مین کے عہدے کے لئے اپوزیشن کے متفقہ اُمیدوار تھے تو ڈپٹی چیئرمین کے عہدے کے لئے حکومتی اُمیدوار مرزاخان آفریدی کا مقابلہ اپوزیشن کے مولانا عبدالغفور حیدری سے تھا۔ چیئرمین کے عہدے کے لئے خفیہ رائے شماری ہوئی تو جناب صادق سنجرانی ایک بار پھر قسمت کے دھنی ثابت ہوئے۔ انھیں غیبی مدد اس طرح ملی کہ یوسف رضا گیلانی کے حق میں ڈالے گئے8 ووٹ تکنیکی طور پر مسترد قرار دیئے جانے کی بنا پر گنتی میں شمار نہ ہوسکے اور جناب صادق سنجرانی، یوسف رضا گیلانی کے 42 ووٹوں کے مقابلے میں 48 ووٹ لینے کی بنا پر کامیابی قرار دے دیئے گئے۔
سینٹ میں اپوزیشن کو عددی برتری حاصل ہونے کے باوجود حکومتی کامیابیوں کی روداد یہیں پر ختم نہیں نہیں ہوتی۔ جمعہ 28 جنوری کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کا ترمیمی بل سینٹ میں منظوری کے لئے پیش کیا گیا۔ اس بل کی قومی اسمبلی تقریباً دو ہفتے قبل منی فنانس بل (ضمنی بجٹ) اور دوسرے بارہ قوانین کے ساتھ منظوری دے چکی تھی۔ حکومت کے لئے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اس ترمیمی بل کی منظوری اس لئے ضروری تھی کہ اس کے بغیر آئی ایم ایف سے ملنے والے چھ ارب ڈالر کے قرضے کی ایک ارب ڈالر کی قسط کی پاکستان کو ادائیگی تعطل کا شکار چلی آرہی تھی۔حکومت اس بل کی سینٹ سے منظوری ضروری سمجھنے کے باجود تذبذب کا شکار تھی کہ وہ سینٹ سے اس کی منظوری کیسے حاصل کرے کہ وہاں اسے اپوزیشن کے بنچوں پر بیٹھنے والے 57 ارکان کے مقابلے میں حکومتی بنچوں پر براجمان 43 ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ اسے اگرچہ اس بات کی بھی مستقل تسلی حاصل ہے کہ دلاور خان (جو مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر سینیٹر منتخب ہوئے تھے) گروپ کے چھ ارکان جو بظاہر اپوزیشن بنچوں پر بیٹھتے ہیں وہ اس کا ساتھ دینے کے لئے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پھر بھی سینٹ کے تمام ارکان (مسلم لیگ نون کے اسحاق ڈار کو چھوڑ کر )جن کی تعداد 99 بنتی ہے وہ تمام ایوان میں موجود ہوں تب بھی حکومت کے حامی ارکان کی تعداد زیادہ سے زیادہ 49 شمار ہوسکتی ہے جس کے مقابلے میں اپوزیشن کی بہر کیف ایک یا دو ارکان کی برتری قائم رہتی ہے۔ پھر تمام ارکان کی سینٹ میں حاضری ایک الگ مسئلہ ہے۔ اس معروضی صورتِ حال میں دیکھا جائے تو حکومت کے لئے سینٹ سے کسی بل کا پاس کرانا اگر ناممکن نہیں تو اتنا آسان بھی نہیں سمجھا جا سکتا۔ لیکن جب اپوزیشن میں ہی آسانی مہیا کرنے والے موجود ہوں تو پھر حکومت کے لئے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے؟
جمعہ 28 جنوری کو سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی سینیٹ سے منظوری کے لئے حکومت نے کچھ ایسا بندوبست کیا کہ بل پر رائے شماری کے وقت اپوزیشن کے آٹھ ارکان جن میں سینٹ میں اپوزیشن لیڈر یوسف رضا گیلانی ، مسلم لیگ ن کے اہم سینیٹر مشاہد حسین اور جمعیت علما ئے اسلام سے تعلق رکھنے والے سینیٹر طلحہ ہی منصوبہ بندی کے تحت یا مجبوری کے عالم میں سینٹ کے اجلاس سے غیر حاضر رہے تو چیئرمین سینٹ بھی ـــ کسٹوڈین آف دی ہائوس کی اپنی غیر جانبدارانہ حیثیت کو چھوڑ کر خم ٹھونک کر میدان میں آگئے۔ اس طرح حکومت رائے شماری میں اپوزیشن کے 42 ووٹوں کے مقابلے میں 43 ووٹ لے کر سٹیٹ بینک ترمیمی بل پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔ اپوزیشن حسبِ سابق اور حسبِ روایت ہنگامہ آرائی، نعرے بازی، ایجنڈے کی کاپیاں پھاڑنے اور چیئرمین ڈائس کاگھیرائوکر کے سانپ کے گزرنے کے بعد لکیر کو پیٹنے کے دِل پسند مشغلے میں مصروف رہی۔
28 جنوری کو سٹیٹ بینک ترمیمی بل کی سینٹ سے منظوری کے موقع پر سینٹ میں اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی اور بعض دوسرے سینیٹرز کی ایوان میں غیرحاضری اور ان کے مبینہ طور پر بل کی منظوری کے لئے حکومت کے سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے حوالے سے بہت کچھ کہا، لکھا، بولا اور سُنا یاجا چکا ہے اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے۔ اپوزیشن لیڈر سید یوسف رضا گیلانی سمیت اپوزیشن کے غیر حاضر سینیٹرز کی وضاحتیںبھی سامنے آچکی ہیں۔ یہ وضاحتیں کس حد تک قابلِ قبول ہیں یا نہیں لیکن میڈیا میں موجود کئی معتبر، باخبر اور سینئر تجزیہ نگار ان کو عذر گناہ، بدتر از گناہ قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں۔یہاں تھوڑا سا حوالہ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے سینیٹر پروفیسر عرفان صدیقی کے اس حوالے سے سامنے آنے والے بیانات کا دیا جاسکتا ہے۔ مارچ 2021 میں سینٹ کارکُن منتخب ہونے کے بعد بلاشبہ مکرم و محترم عرفان صدیقی ایک منجھے ہوئے سنجیدہ خوباوقار اور معتبر پارلیمنٹیرین کے روپ میںسامنے آئے ہیں۔ سینٹ کے ایوان میں زیرِبحث ہر قومی مسئلے پر ان کے بیانات اور ان کا اظہارِ خیال مسئلے یا معاملے کے تمام پہلوئوں کا گہرائی اورگیرائی میں جائزہ لینے کی عکاسی کرتا ہے۔ 28 جنوری کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے ترمیمی بل کی منظور ی کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ایوانِ بالا کی تاریخ کا افسوس ناک دن تھا جب قوم کی توہین کی گئی۔ بل کی منظوری دینے والوں نے اپنی آزادی اور خودمختاری کا سودا کیا ہے۔ اپوزیشن کے سینیٹرز کی ایوان سے غیر حاضری کے بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ کھلی ووٹنگ کا یہ حال ہے تو خفیہ ووٹنگ کا کیا ہو گا۔