ڈاکٹر فضل الرحمن مرحوم کا شمارجید اہل علم میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر فضل الرحمن دینی علوم سے بھی واقف تھے اور دنیا کی جدید یونیورسٹیوں سے بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ ڈاکٹر صاحب نے مذہب کی طرف راغب ہونے والے جدید تعلیم سے آراستہ اذہان کے ایک بڑے طبقے کو متاثر کیا۔ان کا شمار اسلای جدیدیت کے نمایاں ترین مفکرین میں ہوتا ہے۔ڈاکٹر صاحب نے اسلام کو جدیدیت سے متعلق کرنے کے لیے اہم علمی بنیادیں فراہم کیں۔ان کے علم و تحقیق کو ان کے شاگردوں نے انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، بوسینیا، تیونس، مراکش اور دیگر مسلم و مغربی ممالک میں بھی متعارف ہوا۔ ان کی فکر سے علمی ، سماجی اور سیاسی تحریکیں بھی مستفید ہوئی ہیں۔ مگر آئین نو سے ڈرنے اور نقشِ کہن پر بضد رہنے والوں نے پاکستان میں ان کی تصانیف، علمی نظریات اور خدمات کو پنپنے نہیں دیا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہمارا آج کا پڑھا لکھا طبقہ ان کی فکر سے واقف نہیں ہے۔اقبال انٹرنیشنل انسٹیٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ ڈائیلاگ(IRD) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر حسن الامین کی سرپرستی میں مکرمی محمد یونس قاسمی نے ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے مقالات کو نہایت محنت سے ’’اسلامی منہجِ فکر کا تاریخی تناظر‘‘ کے عنوان سے اشاعت کے لیے تیار کیا ہے۔ان کی یہ کاوش اُس محقق اور دانشور کی فکر کو وطنِ عزیز میں متعارف کرانے کی جانب اہم قدم ہے، جن سے بیرونی دنیا تومتعار ف ہے لیکن اپنے وطن میں اجنبی کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔
بنیادی طور پر یہ کتاب انگریزی میں 1965ء میںIslamic Methodology in History کے عنوان سے شائع ہوئی جو زیادہ تر مجموعہ تھی اُن مضامین کا جو ادارہ تحقیقات اسلامی کے انگریزی جریدے’’ اسلامک اسٹڈیز‘‘ میں مارچ 1962سے جون 1963 کے عرصے میں شائع ہوئے۔ منہج سے مراد وہ عمل ہے جو کسی بھی کام کا راستہ ، زاویہ اور اسلوب بتاتا ہے۔ اسلامی منہج کے چار بنیادی اصول قرآن، سنت، اجتہاد اور اجماع کا تاریخی ارتقا کیا ہے؟ یہ مضامین اسی سوال کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن کے مضامین کا بیشتر حصہ دو سوالوں پر مشتمل ہے کہ اسلام آج کہاں کھڑا ہے اور اسے دورِ جدید کے ساتھ کیسے ہم آہنگ کیا جاسکتا ہے۔کتاب کے دیباچے میں ڈاکٹر فضل الرحمٰن لکھتے ہیں کہ ’’ میں خود ایک مسلمان کی حیثیت سے اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ نہ تو اسلام اور نہ ہی مسلم سماج تاریخی حقائق کا سامنا کرنے سے کسی مشکل میں پڑے گا، اس کے برعکس تمام سچائیوں کی طرح تاریخی سچائی بھی اسلام کو تقویت بخشے گی، جیسا کہ قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ خدا تاریخ کے ساتھ گہری وابستگی رکھتا ہے‘‘۔
’’اسلامی منہجِ فکر کا تاریخی تناظر‘‘ قرآن، سنت، اجتہاد اور اجماع کے تاریخی ارتقاء اور تجزیے پر مشتمل ہے۔جن کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ فقہ کے بنیاد ی اصول ہیں جو کہ درحقیقت فقہ کے نہیں بلکہ فکر ِ اسلامی کی بنیاد ہیں۔ ڈاکٹر فضل الرحمٰن یہ بتاتے ہیں کہ تاریخ اسلام کے مختلف ادوار میں ان چاروں اصولوں سے متعلق امت کا نقطہ نظر کیا رہا ہے اور ان اصولوں کا اطلاق کیسے ہوتا رہا ہے اور اسلامی ترقی کے جمود کے اسباب کیا ہیں؟۔اسلام کے ابتدائی دور میں وہ کیا موزوں طرز عمل تھا جس کے ذریعے اس دور کے مسلمان معروضی تقاضوں سے ہم آہنگ ہونے میں کیسے کامیاب ہوئے۔
صدر ایوب خان کی دعوت پر ڈاکٹر فضل الرحمٰن ایسے وقت میں پاکستان تشریف لائے جب دین کو معاشرے، سیاست اور ریاست سے متعلق کرنے میں جو مسائل درپیش ہیں اُن کے حل کے تلاش کی بحث عروج پر تھی۔ یہ بھی اسی ددر میں کہا گیا کہ پاکستان اسلام کے نام پر بنا ہے، ہمارے علماء کا مطالبہ تھا کہ یہاں اسلامی نظام ہونا چاہیے،اسلامی نظام سے متعلق سیاسی اور معاشرتی مباحث کیا ہیں؟مشہور زمانہ عائلی قوانین بھی اسی زمانے میں متعارف کرائے گئے ۔ اس مقصد کے لیے مرکزی ادارہ اسلامک ریسرچ کی بنیاد رکھی گئی جو اب ادارہ تحقیقات اسلامی کے نام سے موجود ہے، ڈاکٹر فضل الرحمٰن اس کے پہلے ڈائریکٹر جنرل مقرر ہوئے اور پاکستان کو ایک جدید ریاست بنانے کے لیے اپنی فکری نگارشات پیش کرتے رہے۔ جس پر انھیں ملک کے مذہبی طبقے کی شدید مخالفت کا بھی سامنا کرنا پڑا۔استاذ مکرم جاوید احمد غامدی بتاتے ہیں کہ سید سلیمان ندوی کی علامہ اقبال کے ساتھ ایک گفتگو بعض لوگوں نے نقل کی ہے جس میں علامہ اقبال نے کسی موقع پر نہایت سخت لہجے میں یہ تبصرہ کیا کہ یہ کیا طلاق کا قانون ہے جس کی کوئی کَل ہی سیدھی نہیں ہے۔ جس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ علامہ قانون کو بھی جانتے تھے اور فقہ کو بھی۔اُن کا خیال یہ تھا کہ سارے فقہی نظام کی تعمیر نو ہونی چاہئے۔ یہ دیکھنا چاہئے کہ اس کی بنیادیں کیا ہیں؟ یہ کس طرح بنا ہے؟ اور کن اساسات پر قائم ہے؟اسی لیے انہوں نے اپنے خطبات کا نام مسلمانوں کے مذہب کی تشکیل جدید رکھا۔
ڈاکٹر فضل الرحمن سے علمی اختلاف بھی اہل علم نے کیا ہے لیکن اس کے باوجود ان کا زوایہ نگاہ اور مسائل کی نشاندہی کا طریقہ کار نہایت اعلیٰ درجے پر نہایت منظم صورت میں موجود ہے۔ اسلام کیا ہے؟ اسلام جو کچھ بھی ہے وہ تاریخ میں اپنا ظہور کیسے کرتا ہے؟اس ظہور کے نتیجے میں جو فکری ڈھانچہ بنتا ہے وہ کیسے عہد بہ عہد خود کو تبدیل کرتا ہے، نبی اکرم حضرت محمدﷺ اسلام کی تعلیمات اور مقاصد کو سامنے رکھ کر کیسے ایک اعلیٰ معاشرے میں تبدیل کرتے ہیں، خلفائے راشدین اس کی روح کو کیسے سمجھتے ہیں اور پھر کیسے نئے پیدا ہونے والے تقاضوں سے ہم آہنگ کرتے ہیں؟ ۔ ڈاکٹر فضل الر حمٰن کی فکر کی بنیادی اساس فکرِاقبال ہے۔ان کے یہاں یہ احساس موجود ہے کہ اسلام کے اصل پیغام اور ان آفاقی اصولوں کو تلاش کیا جائے جو کسی زمانے کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ ہر دور کے لیے رہنمائی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر فضل الرحمٰن کا تصور سنت یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ کی دعوت اسلام کو عملی شکل دینے کے لیے کی گئی جدو جہد کا نام سنت ہے۔ان کے مطابق سنت کے بغیر قرآن مجید کو نہیں سمجھا جاسکتا۔جس کے لیے قرآن اور سنت میںوابستگی اور ہم آہنگی کو لازمی قرار دیتے ہیں۔ اُمید ہے کہ مضامین کا یہ مجموعہ اہل علم اور فکری رہنمائی کے لیے مفید ثابت ہوگا۔