موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے وقت پہلے تین ماہ پھر چھ ماہ اور پھر ایک سال کے اندر ملکی قومی معیشت کو درست کرنے کا اعلان کیا تھا اس کے بعد تو وعدوں اور توجیہات کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ عوام الناس کو اپنی روٹی کی فکر پڑ گئی مگر حکومت وعدے وعید سے باز نہیں آئی اور ایک وقت پر تو وزیراعظم نے یہ بھی کہہ دیا کہ کسی حکومت کی کارکردگی کی جانچ کے لیے 5 سال ناکافی ہیں کیونکہ جب وعدے پورے ہونے کا وقت آتا ہے تو حکومتی میعاد پوری ہو جاتی ہے لہٰذا حکومت کے لیے کم از کم 2ٹرم ہونی چاہیے۔
یاد رہے کہ یہ حکومت 2 بنیادی وعدوں کے بل بوتے پر ایوان اقتدار میں داخل ہوئی تھی جس میں پہلا یہ تھا کہ ملک سے کرپشن کا خاتمہ کیا جائے گا اور لوٹا ہوا پیسہ ملک میں واپس لایا جائے گا جبکہ دوسرا یہ تھا کہ قومی معیشت کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلائی جائے گی اور پاکستان اتنا خوشحال ہو جائے گا کہ باہر سے لوگ نوکری کی تلاش میں یہاں آیا کریں گے۔
جہاں تک کرپشن کے خاتمے کی بات ہے تو عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تازہ ترین رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ ملک میں بدعنوانی میں پہلے سے اضافے ہوا ہے اور 2018ء کے مقابلے میں 2022ء کا پاکستان پہلے سے زیادہ بدعنوان اور بے ایمان ہے یہاں پاکستان سے مراد ملک کا حکومتی ڈھانچہ ہے جس میں سیاستدان بیورو کریسی جوڈیشری اور تمام دیگر قومی محکمے شامل ہیں۔ پہلے دنیا کے (CPI) corruption perception index میں 190 ممالک کی فہرست میں پاکستان 124 ویں نمبر پر تھا مگر اب یہ مزید تنزلی کی طرف گرتے گرتے 16 پوائنٹ اضافے کے بعد 140 ویں نمبر پر آ گیا ہے جو کہ حکومت کے لیے باعث رسوائی ہے۔
اب حکومت کے دوسرے نعرے کی طرف آتے ہیں جس کا تعلق قرضوں سے چھٹکارا اور معیشت کو صحیح ٹریک پر لانا ہے تو اس میں حکومت کی کارکردگی کرپشن کے خاتمے والے نعرے سے بھی زیادہ بدتر ہے۔ قرضوں سے نجات تو دور کی بات ہے اس حکومت نے اپنے چار سالہ دور میں ملک پر اتنا قرضہ چڑھا دیا ہے جو گزشتہ 72 سال میں نہیں ہوا تھا۔ محض جھوٹ بول بول کر اور غلط بیانی سے کام لے کر کوئی حکومت کتنی دیر تک اپنی ساکھ قائم رکھ سکتی ہے۔ حالیہ مالی سال جولائی 2021ء سے اب تک
گزشتہ 6 ماہ میں پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 10.4 بلین ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو تاریخی ریکارڈ ہے کیونکہ یہ اضافہ 78 فیصد ہے قرضے کم ہونے کے بجائے پہلے سے بڑھ گئے ہیں۔
یہاں حکومت ایک اور گیم کر رہی ہے یہ کہتے ہیں کہ ہم پچھلی حکومت کے لیے ہوئے قرضے اتارنے کے لیے نئے قرضے لینے پر مجبور ہیں یہ محض ایک سیاسی پراپیگنڈا ہے یہ حکومت جو نیا قرضہ لیتی ہے اسے ایک طرف تو فارن ایکسچینج ریزرو کو مستحکم کرنے کے لیے ہے یا پھر بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لیے قرضے لیے گئے ہیں جبکہ پچھلی حکومتوں کو بدنام کرنے کے لیے کہہ دیا جاتا ہے کہ ہم ان کے قرضے اتار رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ نے ملک میں ٹیکسوں کی جو آگ لگا رکھی ہے جس کے نتیجے میں حکومت کی ٹیکس آمدنی پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں سے غریبوں کا پہلے سے زیادہ خون نچوڑا جا رہا ہے تو یہ پھر بھی بجٹ خسارہ کیوں ہے یا آپ کے زرمبادلہ کے ذخائر کیوں نہیں بڑھ رہے۔ وہ پیسہ کہاں جا رہا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عالمی ادارے کی رپورٹ صحیح ہے کہ یہ سرکاری خزانہ کچھ لوگوں کی ذاتی جیبوں میں جا رہا ہے۔ اس ساری صورت حال کا سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ موجودہ حکومت تاریخ کی مہنگی ترین شرح سود اور ذلت آمیز شرائط پر قرضے لے رہی ہے پہلے تو ہمارا پھر بھی کچھ نہ کچھ وقار باقی تھا مگر اب تو آئی ایم ایف کے پیر پکڑنے سے بھی بات آگے جا چکی ہے۔
آئی ایم ایف کے علاوہ یہ حکومت چین، سعودیہ، امارات اور قطر سے غیر روایتی قرضے لے چکی ہے اور اب یہ خبریں آ رہی ہیں کہ حکومت چائنا روس اور قازقستان سے 5 ارب ڈالر لینے کے لیے منت ترلے کر رہی ہے یہ خبر سن کر ہم نے سوچا کہ شاید آئی ایم ایف نے انکار کر دیا ہے اس لیے متبادل راستہ ڈھونڈا جا رہا ہے مگر حیرت کی بات ہے کہ آئی ایم ایف سے بھی معاملات اسی طرح چل رہے ہیں گویا جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ سٹیٹ بینک کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ حکومت نے اس سال گزشتہ سال کے مقابلے میں قرضہ واپس کرنے کی شرح میں 2 بلین ڈالر کی کمی آئی ہے گویا ہم نئے قرضے لیتے جا رہے ہیں اور قسطیں واپس کرنے کے بجائے ڈیفالٹ کر رہے ہیں۔ یہ سارے اعداد و شمار اور امکانات پاکستانی معیشت کے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچنے کی نشانیاں ہیں۔
اسی اثنامیں حکومتی ساکھ پر تبصرہ نیب کا ذکر کیے بغیر مکمل نہیں ہوتا۔ نیب اور نظام انصاف سے عوام کا اعتماد مکمل طور پر اٹھ چکا ہے خصوصاً نیب کو سیاسی مخالفین اور انتقامی سیاست کے لیے اتنا غلط استعمال کیا گیا کہ اب اس کاچہرہ مسخ ہو چکا ہے بلکہ نیب ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے۔ رانا ثناء اللہ پر 35 کلو ہیروئن کا مقدمہ تاریخ میں ہمیشہ سیاہ لفظوں میں لکھا جائے گا۔ اس کے باوجود وزیراعظم اٹھتے بیٹھتے ایک ہی بات کرتے ہیں کہ کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ حالانکہ نواز شریف کی جیل سے رہائی اور جلا وطنی ان کی مرضی سے عمل میں آئی۔ سارے فیصلے وزیراعظم خود کرتے ہیں کابینہ کی حیثیت ان کے گھریلو ملازمین سے زیادہ نہیں ہے پارٹی کے اندر جمہوریت نہیں بلکہ خوشامد اور چاپلوسی کا ایک منظم نظام چل رہا ہے۔
گزشتہ ہفتے وزیراعظم کے اس بیان نے پورے ملک میں اضطراب اور بے چینی پیدا کر دی کہ میں اقتدار سے باہر آ کر ان کے لیے زیادہ خطرناک ہو جاؤں گا اور اپوزیشن کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ یہ بیان سیاست کی ادنیٰ سوجھ بوجھ رکھنے والے شہری کو بھی پتہ ہے کہ وزیراعظم صاحب کس سے مخاطب ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک پیج والا ورقہ پھٹ چکا ہے اور وزیراعظم اگلے الیکشن کے بعد اپنے لیے کسی نئے رول کے متلاشی ہیں اور اپیل کر رہے ہیں کہ انہیں ایک موقع اور دیا جائے۔ اس پر چودھری شجاعت حسین نے کہا ہے کہ وزیراعظم کو جس نے ایسا کہنے کا مشورہ دیا ہے وہ ان کا دوست نہیں بلکہ دشمن ہے۔ چودھری شجاعت سیاست کے سرد گرم سے واقف ہیں اور انہیں پتہ ہے کہ 2008ء کے الیکشن میں ق لیگ کو عوام نے اس لیے مسترد کر دیا تھا کہ ان کی پارٹی وہ جنرل مشرف کو دس بار وردی میں منتخب کرانے کا عزم رکھتی تھی۔
جہاں تک وزیراعظم کے زیادہ خطرناک ہونے کی بات ہے وہ بھول رہے ہیں کہ عوام میں ان کی مقبولیت اب حد درجہ گر چکی ہے وہ 126 دن والے دھرنے کے خواب دیکھنا چاہتے ہیں لیکن آپ دیکھیں گے جب یہ پارٹی اقتدار کے گھوڑے سے نیچے اترے گی تو ان میں سے بہت سے چہرے پارٹی چھوڑ چکے ہوں گے۔ اور اس پارٹی کو تتر بتر ہونے سے روکنا وزیراعظم کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ وہ جو مرضی کہتے رہیں یہ حقیقت ہے کہ ان کے دور میں مہنگائی نے عوام کا جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا بہت مشکل کر دیا ہے جبکہ دوسری طرف پنجاب میں ن لیگ پہلے سے زیادہ اکثریت کے ساتھ واپسی کے لیے بے چین ہے اور ان کی مقبولیت ان کی اپنی وجہ سے نہیں بلکہ حکمرانوں کی نا قص طرز حکمرانی کی بنیاد پر ہے۔