آڈیو، ویڈیو معرکہ

Naveed Chaudhry, Pakistan, Lahore, Daily Nai Baat, e-paper

اصل فریقوں کے درمیان لڑائی اور مذاکرات کا سلسلہ ایک ساتھ جاری ہے۔ ایک فریق وہ سیاسی جماعت اور اسکے اتحادی ہیں جیسے 2018 سے پہلے ہی نیست و نابود کرنے کا منصوبہ بنا لیا گیا تھا مگر تیر نشانے پر نہ لگ سکا دوسرا فریق وہ ہے جو 1947 سے لے کر آج تک اقتدار اور اختیارات کا اصل مالک ہے۔ تازہ جھڑپ اس وقت ہوئی جب امریکا کے محفوظ مقام پر بیٹھے پاکستانی صحافی نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار سے منسوب ایک آڈیو کلپ کواپنی ویب سائٹ پر جاری کیا۔ باور کیا جاتا ہے کہ یہ آڈیو کلپ مسلم لیگ ن کے حلقوں کی جانب سے ہی فراہم کیا گیا ہے۔ کلپ ویب سائٹ پر پوسٹ کرنے سے قبل کیس فْول پروف بنانے کے لئے اسکا فرانزک امریکا کے معروف ادارے گیریٹ ڈسکوری سے کرایا گیا۔ امریکی ادارے کو ثاقب نثار کی آواز کے نمونے حکومت پاکستان کی ویب سائٹ پر موجود ویڈیوز سے فراہم کیے گئے۔ فرانزک رپورٹ کے نتائج نے واضح کردیا کہ یہ آواز ثاقب نثار کی ہی ہے۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس آڈیو کلپ میں کسی قسم کی ملاوٹ یا جوڑ توڑنہیں اور یہ کہ اس کلپ کو عدالت میں ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ یہی وہ نتائج ہیں کہ جن کے سبب پاکستان میں کھلبلی مچ گئی۔اس آڈیو کلپ کو ملک کے اندر جھٹلانے کی کوشش کی گئی۔ ”محب وطن“میڈیا کو حرکت میں لایا گیا،کہا گیا یہ سب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی مختلف مواقع پر کی گئی تقاریر کے الگ الگ الفاظ لے کر توڑ جوڑ کر بنایا گیا ہے۔مسلم لیگ ن جو یقینی طور اس معاملے میں فریق ہے یہ کہہ کر اسے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنانے سے دور رہی کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس لے کر کارروائی کرے۔ اس دوران آڈیو کے مصدقہ ہونے کا معاملہ مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی تو آڈیو جاری کرنے والے صحافی نے ایک کھلا چیلنج دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جو ٹی وی چینلز اس آڈیو کلپ کو جعلی قرار دے رہے ہیں ان سے گزارش ہے کہ یہی خبر اپنے ادارے کی یورپ یا امریکا کی نشریات میں بھی چلا دیں۔ انہوں نے طنز اً یہ بھی کہا کہ ان دنوں میرا ہاتھ بھی تنگ ہے۔ ظاہر ہے ان کا واضح اشارہ اس جانب تھا کہ ان چینلوں نے ایسا کیا تو وہ ہرجانے کا دعویٰ کرکے بھاری رقوم وصول کریں گے۔ یہ بات نوٹ کی جانی چاہئے کہ ان چینلوں نے یہ خبر تو کیا اس حوالے سے ٹاک شوز بھی یورپ اور امریکا میں نشر نہیں ہونے دئیے۔ وجہ صاف ظاہر ہے۔ ثاقب نثار سے منسوب اس آڈیو میں سکیورٹی اداروں کو ملوث کیا گیا ہے سو ملک کے اندر تو اس حوالے کسی پیش رفت کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایسا ہوا تو بات اصل کرداروں تک پہنچ جائے گی۔البتہ جوابی حملے کے طور پر مریم نواز کی ایک آڈیو لیک کی گئی جس میں وہ غالباً 2014 والے دھرنے کے دنوں میں عمران خان اور طاہر القادری کے پرتشدد احتجاج کی کھلی حمایت کرنے والے نجی چینلوں کو اشتہارات جاری نہ کرنے کی بات کررہی ہیں۔ مریم نواز نے اگلے ہی روز تسلیم کرلیا کہ یہ انہی کی آواز ہے۔ مریم اورنگ زیب نے دعویٰ کیا کہ یہ بات پارٹی اشتہارات کے حوالے سے تھی۔ بہر حال یہ کسی حقیت کسی سے چھپی ہوئی نہیں کہ نواز شریف کے دور حکومت میں مریم نواز ہی حکومتی میڈیا سیل کو چلا رہی تھیں اور اسٹیبلشمنٹ اس پر سیخ پا تھی۔ حکومت اور مقتدر حلقے اب اس بات کا بتنگڑ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ معاملہ عدالت میں ہے اور اب سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے بھی اس حوالے درخواست دائر کردی ہے۔ جہاں تک نواز شریف اور مریم نواز کو دی گئی سزاؤں کا تعلق ہے تو یہ ایک کھلا راز ہے کہ ایسا کس نے اور کیوں کرایا۔ اس تمام معاملے میں ثاقب نثار کا کردار بالکل واضح ہے۔ نکتہ صرف یہ ہے کہ اگر عدالتی سطح پر اس کیس کا کوئی فیصلہ ثاقب نثار کے خلاف آجاتا ہے تو بات صرف ان کی ذات تک ہی محدود نہیں رہے
گی۔ پھر پاکستان میں ایسا کونسا ادارہ ہوگا جس کی فرانزک رپورٹ کو تمام فریق تسلیم کرلیں۔ ظاہر ہے حکومت اور مقتدر حلقے کسی صورت امریکا یا یورپ سے رپورٹ حاصل کرنے کی حمایت نہیں کرسکتے۔ ایک زبردست دباؤ ہے جس کا مظاہرہ منگل کو گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے حوالے سے دیکھنے میں آیا۔ موصوف نے لندن جاکر اپنا بیان حلفی نوٹریفائیڈ کرایا تھا۔ جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس ان کے سامنے بیٹھ کر ججوں کو فون کرکے کہا کہ نواز شریف اور مریم نواز کی کو الیکشن 2018 سے پہلے جیل سے باہر نہیں آنے دینا۔ یہ بالکل ویسا ہی بیان ہے جو اسلام آباد ہائیکورٹ کے سابق دبنگ اور نیک نام جج شوکت عزیز صدیقی پہلے ہی دے کر اپنی کرسی گنوا چکے ہیں مگر اس حوالے سے ان کا بیان حلفی سپریم جوڈیشل کونسل میں جمع ہے۔ بعد میں احتساب عدالت کے جج ارشد ملک مرحوم نے بھی عین یہی اعتراف کیا۔رانا شمیم کا بیان حلفی بھی انہی جج صاحبان کے بیانات کا تسلسل تھا مگر وہ عدالت میں پیش ہوئے تو بوکھلائے نظر آئے۔ ان کو اصل بیان حلفی جمع کرانے کا حکم دیا گیا ہے۔ رانا شمیم کے پاس اپنی بات سے پھرنے کے زیادہ مواقع نہیں۔ لیکن اگر جیسا بتایا گیا ہے ویسا ہی بیان حلفی جمع کرا بھی دیا گیا تو بات شاید زیادہ آگے تک نہ جاسکے۔ آڈیو ویڈیو کا یہ کھیل بہت وسیع ہے۔ 2014 کے دھرنوں کے عین عروج میں نواز شریف نے جنرل راحیل شریف کو حکومت کے خلاف ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ظہیر السلام کی آڈیو سنوا دی تھی۔ عمران خان اور عارف علوی کی گفتگو بھی ریکارڈ ہوگئی۔ کہا جاتا ہے اس بحرانی دور میں سویلین خفیہ ایجنسی آئی بی بھی کارکردگی کے لحاظ سے پورے جوبن پر تھی۔ یقیناً اور بھی آڈیو اور ویڈیو کلپس موجود ہیں۔ اسی طرح دوسری جانب سے نواز شریف کے بھی آڈیو ویڈیو کلپ بنائے گئے۔بعض ”وارداتیں“ وزیراعظم ہاؤس کے اندر ڈالی گئیں۔ یقیناً اس حوالے سے دونوں فریقوں کے پاس ”بھاری اسلحہ بارود“ موجود ہے مگر شاید فی الحال کوئی بھی پوائنٹ آف نو ریٹرن تک نہیں جانا چاہتا۔انہی دنوں ایک مضحکہ خیز ویڈیو لاہور کے حلقہ این اے 133 میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے حوالے سے بھی جاری کی گئی۔ جس میں ماسک والے چند نامعلوم لوگوں کو ایک ایسی جگہ بیٹھا دکھایا گیا ہے جہاں مسلم لیگ ن کے بینرز لگے ہوئے ہیں۔ اس ”دفتر“ میں ماسک پہنے ہوئے چند عورتوں کو دو، دو ہزار روپے لے کر شیر پر مہر لگانے کا حلف لیتے دکھایا گیا ہے۔ اس حلقے میں الیکشن اسی وقت پھیکا پڑ گیا تھا جب تحریک انصاف کے امیدوار جمشید چیمہ اور کورنگ امیدوار ان کی اہلیہ مسرت جمشید چیمہ کے کاغذات نامزدگی ایک ایسی خود ساختہ غلطی کے سبب مسترد ہوگئے جو عام سمجھ بوجھ والا انسان بھی نہیں کرسکتا۔ کہا جاتا ہے کہ پی ٹی آئی کے امیدوار مقابلے سے گریزاں تھے سو انہوں نے میدان سے باہر ہونے قانونی راستہ نکالا۔ پیپلز پارٹی کے امیدوار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ انکی کوشش یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرکے اور چھوٹی موٹی پارٹیوں اور گروپوں کو ساتھ ملا کر زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرکے پنجاب میں اپنا وجود ثابت کیا جائے۔ یہ الزام پیپلز پارٹی پر بھی لگ رہا ہے کہ وہ کھلم کھلا نوٹ دے کر ووٹ خرید رہی ہے۔ بہر حال“ مشترکہ مفادات کونسل“ کے تحت ن لیگ کے متعلق بنائی جانے والی ویڈیو کو حکومت اور اسکے ترجمان میڈیا نے خوب اچھالا۔ اگرچہ الیکشن کمیشن نے تحقیقات کا حکم دے دیا ہے مگر لگتا نہیں کہ کوئی ٹھوس نتیجہ نکلے۔حالیہ جلسوں اور طریقہ واردات سے یہ بات پھر ثابت ہوگئی کہ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی ایک دوسرے کو پاس دیتے ہوئے مخالف سیاسی ٹیموں کی گول پوسٹ پر حملوں کی کوشش کررہے ہیں۔ ان دنوں جماعت اسلامی بھی اچانک متحرک ہوگئی ہے۔ اسلام آباد میں جلسے کے دوران سراج الحق نے اسٹیبلشمنٹ پر تابڑ توڑ حملے کیے۔عدلیہ کو بھی خوب لتاڑا۔ اس کے باوجود تاثر یہی ہے کہ جماعت اسلامی اکیلے کچھ نہیں کرسکتی۔یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسٹیبلشمنٹ کے نزدیک جماعت اسلامی اور پیپلز پارٹی دونوں ہی بے ضرر اور موافق پارٹیاں ہیں۔ سو ان کی سرگرمیوں پر مقتدر حلقوں کو کوئی تشویش ہے نہ اعتراض۔ پی ڈی ایم ہی وہ کانٹا ہے جو مسلسل کھٹک رہا ہے مگر اس کی بے عملی کے سبب اس محاذ پر بھی کافی حد تک سکون ہی ہے۔ان دنوں پی ڈی ایم کو نجم سیٹھی کے اس مشورے پر حکومتی حلقوں اور ہمنوا میڈیا میں بہت شور مچایا جارہا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ اگر اب لانگ مارچ کیا تو وہاں جاکر چپ چاپ نہیں بیٹھنا بلکہ کچھ کرکے دکھانا ہوگا۔ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیں نجم سیٹھی کے خلاف گلے پھاڑنے والے وزرا، ترجمان اور میڈیا کے وہ نمونے ہیں جو ایک عرصہ تک پچھلی حکومتوں اور حکمرانوں پر حملے کرنے، گھیراؤ، جلاؤ اور فسادات کے لئے اکساتے رہے۔ سرے سے بے بنیاد اور اشتعال انگیز خبریں مسلسل دینے کے ساتھ گالیاں تک بکتے رہے۔ کوئی قاعدہ قانون ہوتا یہ سب عناصر آج اپنے کئے کی سزا پا رہے ہوتے۔ اگر کبھی ملک میں واقعی کوئی تبدیلی آئی تو ثاقب نثار جیسے ججوں کی طرح اسی گینگ سے تعلق رکھنے والے میڈیا چیمپئن بھی حقیقی احتساب کے کٹہرے میں ہونگے۔ مگر افسوس اس وقت تو سب کو اپنی اپنی لائن سیدھی کرنے کی پڑی ہے۔ پی ڈی ایم کے متعلق بھی ٹوٹ پھوٹ کے خدشات پیدا ہورہے ہیں۔ آڈیو ویڈیو معرکے بھی جاری رہیں گے لیکن اگر یہ تاثر ہو کہ جن سے انصاف لینا ہے وہ ثاقب نثار کی صورت میں جو گل پہلے کھلا چکے آگے بھی وہی کھلائیں گے تو کوئی کیا کرسکتا ہے۔ فرض کریں اگر کوئی فیصلہ کمزور فریق کے حق میں آبھی گیا تو عمل درآمد کون کرائے گا۔ ایسا بھی نہیں کہ جو ہورہا ہے سب بے کار ہے، تاریخ بن رہی ہے، ریکارڈ مرتب ہورہا ہے۔ یہ نقوش انمٹ ہوں گے۔