آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر سے زائد کی قسط وصولی کے لئے پی ٹی آئی کی حکومت نے منی بجٹ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے چوتھے ٹیکس قوانین ترمیمی آرڈیننس کو بل میں تبدیل کر دیا ہے، 350 ارب روپے کی ٹیکس مراعات ختم ہو جائیں گی۔ پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ وصولی کا ہدف 600 ارب روپے سے کم کر کے 356 ارب روپے مقرر کیا جائے گا۔ ترمیمی بل میں حکومت برآمدات کے علاوہ زیرو ریٹنگ سے بھی سیلز ٹیکس چھوٹ واپس لے گی جن اشیاء پر سیلز ٹیکس چھوٹ زائد ہے ان پر اسٹینڈرڈ سیلز ٹیکس ریٹ 17 فیصد لاگو ہو گا۔مخصوص شعبوں کو حاصل ٹیکس چھوٹ بھی ختم کئے جانے کا امکان ہے اس میں پیٹرولیم مصنوعات اور صنعتی شعبے کو بجلی، گیس پر دی گئی ٹیکس چھوٹ بھی شامل ہے۔ صنعتی شعبہ اس بوجھ کو عوام پر منتقل کر دے گا جس سے مہنگائی مزید بڑھ جائے گی۔ رواں مالی سال کے لئے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5829 ارب روپے سے بڑھا کر 6100 ارب روپے مقرر کرنے کی تجویز ہے جب کہ ترقیاتی پروگرام میں 200 ارب روپے کمی کرنے کی تجویز بھی ترمیمی بل کا حصہ ہے۔ اس سے ظاہر ہے مہنگائی میں اضافہ ہو جائے گا عوام تو پہلے ہی روز افزوں مہنگائی سے بری طرح متاثر ہیں۔ منی بجٹ کے آنے سے جو مہنگائی کی لہر آئے گی صورتحال کو مزید سنگین بنا ڈالے گی۔
پاکستان میں جب بھی بین الاقوامی اداروں سے بھاری اور سخت شرائط پر قبضہ لیا جاتا ہے تو اس کے فوائد و ثمرات یہ بتائے جاتے ہیں کہ اس سے ملک کی معیشت مضبوط ہو گی، عوام کا معیارِ زندگی بہتر ہو گا اور ملک ترقی و استحکام کی شاہراہ پر گامزن ہو جائے گا مگر کچھ عرصہ کے بعد جب قرضے کی اگلی قسط لینے کی باری آتی ہے تو وہی عالمی ادارے کہتے ہیں کہ ملکی معیشت کی حالت بہتر نہیں، خسارہ بڑھ گیا ہے، کرنسی کی قدر گر گئی ہے لہٰذا اگلی قسط کی فراہمی کے لئے مزید شرائط پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔ موجودہ حکومت جب اپوزیشن میں تھی تو بیرونی قرضہ جات اس کا خاص ہدف تھے کہ کشکول توڑے بغیر ملک ترقی کی منازل طے نہیں کر سکتا ہے اور اگر اسے حکومت کرنے کا موقع میسر آیا تو وہ اس جان چھڑا لیں گے جب کہ حکومت میں آتے ہی پہلا کام آئی ایم ایف سے رجوع کرنے کا فیصلہ کیا گیا اور یقین دہانی کروائی کہ جلد ہی معیشت کی زبوں حالی پر قابو پا لیا جائے گا جس کے بعد بیرونی قرضوں سے نجات حاصل ہو جائے گی، لیکن اب حکومت کے تین سال گزر جانے کے بعد بھی صورتحال یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضے کی نئی قسط لینے کے لئے اس کی ہر جائز ناجائز شرط کو پورا کیا جا رہا ہے۔
بجٹ پیش کرنے سے قبل وزیرِ خزانہ شوکت ترین نے کہا تھا کہ ہم اس بجٹ میں آئی ایم ایف کی کسی شرائط کو نہیں مانیں گے یہ ہمارا بجٹ ہے، بجٹ میں کوئی مہنگائی نہیں کی جائے گی۔ لیکن یہ جذباتی انداز اختیار کرنے کے بعد مہنگائی بھی ہوئی، آئی ایم ایف کے مطالبات بھی مانے جا رہے ہیں آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے ضمن میں حکومت نے سٹیٹ بینک کو خود مختاری دے دی ہے۔ معاہدے کے تحت مانیٹری پالیسی ریٹ، ایکسچینج ریٹ پالیسی سٹیٹ بینک کے پاس ہو گی اور وہ ان کے بارے میں فیصلہ کرنے کے سلسلے میں کسی کا پابند نہیں ہو گا۔ سٹیٹ بینک نے خود مختاری کے بعدشرح سود میں اضافہ کر دیا ہے جس سے ملک میں مہنگائی کی نئی لہر آ چکی ہے، جب کہ سٹاک مارکیٹ میں شدید مندی ریکارڈ کی جا رہی ہے۔ حکومت کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف کے قرضے کی بحالی سے روپے کی قدر میں کمی آئے گی اور ڈالر کی قیمت کم ہو جائے گی لیکن سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ ڈالر کی قیمت کتنی دیر کے لئے کم رہے گی۔ ماہرین کا خیال ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض منظوری کے بعد وقتی طور پر روپے کی قدر مستحکم ہو گی لیکن کچھ عرصہ کے بعد روپے قدر میں بہت کمی واقع ہو گی۔
عام آدمی پریشان ہے اسے فکرِ معاش چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ہے وہ ان حالات میں سوچ رہا ہے کہ آئی ایم ایف کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا، وہ آئی ایم ایف کی مزید شرائط پر عملدرآمد کے فیصلے کو روکنے سے قاصر ہے بس اسے اتنی فکر ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط اس پر اس دفعہ کتنی بھاری پڑ سکتی ہیں۔ وزیرِ اعظم گزشتہ تین سال سے ایک ہی بات کر رہے ہیں کہ قوم کو جلد خوشخبری ملے گی لیکن اس تمام عرصہ میں کسی اچھی خبر کا دور دور تک نام و نشان نظر نہیں آیا۔ بلکہ مہنگائی ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ خور د و نوش، پوشاک، تعمیراتی سامان غرض ہر چیز کی قیمت میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ بڑھتی قیمتوں سے عوام الناس پریشانی کے عالم میں سرگرداں ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی کے عالم میں سب سے زیادہ متاثر یومیہ اجرت کا کام کرنے والوں کی حالت بہت نازک ہوتی جا رہی ہے۔ ان میں جو بیچارے ہنر اور تعلیم سے عاری ہیں انہیں مزدوری تک نہیں ملتی ہے۔ عارضی کام مل بھی جائے تو بھی اجرت سے چولہا تک نہیں جلتا، دو وقت کی روٹی کے لئے کتنے ہی جتن کرنا پڑتے ہیں۔ مہنگائی نے سفید پوش خاندانوں کے لئے بھرم قائم رکھنا مشکل بنا دیا ہے۔ وضع داری اور رکھ رکھاؤ دم توڑ گئے ہیں۔
سیاسی حکومتوں سے غلطیاں زیادہ سرزد ہوتی ہیں، لوگ ہر حکومت کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ ضرورت سے زیادہ توقعات وابستہ کر لیتے ہیں۔ سیاست دان بھی بڑے کمال کے لوگ ہوتے ہیں، انتخابات کے دوران ووٹ مانگتے ہوئے ایسے ایسے دعوے کر گزرتے ہیں کہ عوام کو ان کی شکل میں اپنے تمام مسائل کا حل نظر آنا شروع ہو جاتا ہے۔ انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا لیڈر انتخاب کے فوری بعد ان کے لئے دودھ اور شہد کی نہریں بہا دے گا، آسانیاں ہی آسانیاں پیدا کر دے گا۔ غربت ختم ہو جائے گی، مہنگائی کا نام و نشان مٹ جائے گا، روزگار کی صورتحال یوں ہو گی کہ ایک نوجوان کی جیب میں دو دو تقرر نامے ہوں گے اور وہ تیسری زیادہ بہتر جاب کے لئے پہلی اور دوسری جگہ جوائن نہیں کرے گا۔ کسی آئیڈیل معاشرے میں ایسے ہی حالات ہوسکتے ہیں۔ ایسا معاشرہ خوابوں کی دنیا میں کہیں ہوتا ہو گا۔ موجودہ حکومت کے لئے ابھی اتنا وقت ہے کہ وہ اصلاحات لاکر ملکی معیشت میں بہتری لا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف سے منہ موڑ کر اپنے ذرائع کو استعمال کر کے رعایا کو عوام اور قوم بنا دے۔ سیاست دان سے لیڈر بننے کے لئے نعرے و دعوے یا دشمنیاں و دوستیاں نہیں کریڈیبلٹی چاہئے۔ وقت ہے خان اپنی اور قوم کی اٹھان کے لئے اصلاحات کے عزم میں سنجیدگی لائیں۔ وہ امر ہو جائیں گے اگر قوم کو اصلاحات کا موڑ میسر آ گیا۔
آئی ایم ایف کا دباؤ اور منی بجٹ
09:34 AM, 3 Dec, 2021