لاہور : کامران علی سن دو ہزار دو میں پہلی مرتبہ جرمنی آئے اور جہاز میں بیٹھے ہوئے انہوں نے نیچے آباد ایک وسیع دنیا کو تسخیر کرنے کا خواب دیکھا۔ کامران نے جرمنی سے اپنے سفر کا آغاز کیا اور پھر پولینڈ، چیک جمہوریہ، آسٹریا، سلوواکیا، ہنگری، رومانیہ اور بلغاریہ سے ہوتے ہوئے ترکی پہنچے.
1-یہ تصویر ترکی کے شہرکیپیڈوشیا کی ہے، جو دیو قامت پتھروں اور پہاڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس شہر کا نظارہ ان بڑے غباروں میں بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے۔
2-ترکی میں کامران علی کو اپنی والدہ کی بیماری کی وجہ سے اپنا سفر ترک کرنا پڑا۔ وہ اپنی والدہ کے پاس واپس پاکستان چلے گئے۔ ان کی والدہ صحت یاب نہ ہوسکیں اور انتقال کر گئیں.
3- مارچ 2015 میں کامران نے ترکی کے اسی مقام سے دوبارہ سائیکل پر اپنے سفر کا آغاز کیا، جہاں سے یہ سلسلہ ٹوٹا تھا لیکن والدہ کی یادیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں۔
4-کامران ترکی سے ایران پہنچے اور وہاں سے ترکمانستان، ازبکستان، تاجکستان، کرغرستان اور چین کے راستے سے ہوتے ہوئے اپنی منزل مقصود پاکستان پہنچنے میں کامیاب رہے۔
5-راستے میں کامران کو مختلف لوگوں نے اپنے ہاں قیام کرنے کی دعوت دی۔ اس تصویر میں کامران پولینڈ میں اپنے میزبان کے ساتھ کھڑے ہیں، جن کے گھر انہوں نے ایک رات قیام کیا۔
6-یہ تصویر چین کے صوبے سینکیانگ کی ہے۔ اس تصویر میں ایک عیدگاہ دیکھی جا سکتی ہے اور یہ تصویر روزہ کھولنے کے کچھ دیر بعد کی ہے۔ کامران کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک عید گاہ کے پاس اتنی منفرد کھانے پینے کی اشیاء کی مارکیٹ پہلے کبھی نہیں دیکھی۔
7-کامران چیک جمہوریہ میں اپنے میزبان کے گھر لکڑی کاٹنے میں اس کی مدد کر رہے ہیں۔
8-پچپن کلومیٹر مسلسل سائیکل چلانے کے بعد علی کامران علی نے تاجکستان میں ایک خاندان کے ساتھ ان کے ٹینٹ نما گھر، جسے یورٹ مامازیر بھی کہتے ہیں، میں قیام کیا۔ یہ کامران کے لیے بھی ایک منفرد تجربہ تھا.
9-اس سفر کے دوران علی کامران کو مختلف ثقافتیں بھی دیکھنے کا موقع ملا۔ اس تصویر میں چین کے شہر تاشکرگھن میں بزکشی کا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔
10-علی کامران پاکستان چین بارڈر، جسے خنجراب بارڈر کہتے ہیں، وہاں موجود ہیں۔ 4692 میٹر کی بلندی پر واقع یہ دنیا کی سب سے بلند ترین بین الاقوامی ہائی وے ہے۔
11-کامران علی کا وہ خواب تکمیل کو پہنچا، جسے انہوں نے تقریباﹰ تیرہ برس پہلے دیکھا تھا۔
12- کامران علی بیان کرتے ہیں کہ ایک سو چوبیس دنوں کی مسافت کے بعد اپنا سفر مکمل کر کے پاکستان پہنچنا ان کے لیے انتہائی خوشی کا موقع تھا۔