9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو گولی کیوں نہیں ماری گئی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی

9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو گولی کیوں نہیں ماری گئی؟ جسٹس یحییٰ آفریدی

اسلام آباد: سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائلز کے خلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے ہیں کہ 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملہ کرنے والوں کو گولی کیوں نہیں ماری گئی؟ اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ یہ نہیں ہوسکتا کہ شہریوں کو گولی مارنے کی مثال قائم کی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ فوج کی تعریف کرنی چاہیے کہ انہوں نے شہریوں پر گولی نہیں چلائی۔ 

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 6 رکنی لارجر بینچ شہریوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلانے کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر رہا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الاحسن ، جسٹس منیر اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی ،جسٹس عائشہ ملک اور جسٹس یحییٰ آفریدی پر مشتمل ہے۔ 

سماعت کے دوران جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سویلین کا فوجی عدالت میں ٹرائل متوازی عدالتی نظام کے مترادف ہے۔

جسٹس یحیی آفریدی نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ آرٹیکل 175 اور آرٹیکل 175/3 کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’کورٹ مارشل آرٹیکل 175 کے زمرے میں نہیں آتا۔

جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ ’کیا آئین میں ایسی اور کوئی شق ہے جس کی بنیاد پر آپ بات کر رہے ہیں۔ کیا آپ پھر میرے سوال سے ہٹ رہے ہیں؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ بنیادی انسانی حقوق مقننہ کی صوابدید پر نہیں چھوڑے جا سکتے۔ بنیادی انسانی حقوق کا تصور یہ ہے کہ ریاست چاہے بھی تو واپس نہیں لے سکتی۔

جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’انصاف تک رسائی بنیادی انسانی حقوق میں شامل ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتیں ٹریبیونل کی طرح ہیں جو آرمڈ فورسز سے وابستہ افراد اور دفاع کے متعلق ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ہم اب آئینی طریقہ کار کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ کیسے ملٹری کورٹس میں کیس جاتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک پارلیمنٹ کچھ جرائم کو آرمی ایکٹ میں شامل کرے اور دوسری پارلیمنٹ کچھ جرائم کو نکال دے یا مزید شامل کرے۔ بنیادی انسانی حقوق کی ضمانت تو آئین پاکستان نے دے رکھی ہے۔جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 175 کے تحت ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ کا ذکر ہے۔

اٹارنی جنرل نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’فوجی عدالتوں کا قیام ممبرز آف آرمڈ فورسز اور دفاعی معاملات کے لیے مخصوص ہیں۔ انہوں نے کہا کہ فوج کو یہ تربیت دی جاتی ہے کہ حملہ ہو تو گولی ماردیں۔ 

اس پر جسٹس یحییٰ آفریدی نے ریمارکس دیے کہ کیا کیوں نہیں؟ یہی تو پوائنٹ ہے، شوٹ آن پوائنٹ کیوں نہیں کیا؟ اس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ سویلینز کا تحفظ بھی ضروری تھا ۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ شہریوں کو گولی مارنے کی مثال قائم کی جائے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ فوج نے گولی نہ چلا کر بہت اچھا اقدام کیا۔ 

مصنف کے بارے میں