میا ں شہبازشریف نے اپنے کپڑے بیچنے کا جھانسہ دے کر پاکستان کے غریب آدمی کو ننگا کردیا ہے۔ جاتے جاتے بھی انہوں نے پیٹرول کی قیمت میں 19.95 پیسے اضافہ کردیا۔ و ہ اِس سے زیادہ بھی کرسکتے تھے لیکن ابھی ملکی مفاد اس کی اجازت نہیں دے رہا ہو گا۔ ریاست بچانے کیلئے میاں محمد شہباز شریف نے اپنی سیاست کی قربانی دی ہے دعا گو ہوں کہ اُن کی قربانی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے قبول ہو جائے۔پیٹرول کی قیمتوں سے صرف وہ لوگ متاثر ہو ں گے جنہوں نے اپنی کمائی سے پیٹرول ڈلوانا ہوتا ہے لیکن حکمران طبقے کی کوئی بھی شکل ہو اُسے اِس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ میاں محمد شہباز شریف کو شاید یہ بات کسی نے نہیں بتائی کہ آبادی کے بغیر ریاست کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور آبادی کو زندہ رہنے کیلئے ضروریات ِ زندگی کی ضرورت ہوتی ہے جو ریاست نے فراہم کرنا ہوتی ہے اور ریاست صرف اقتدارِ اعلیٰ ٗ حکومت یا رقبے کا نام نہیں یہ تینوں عناصر موجود بھی ہوں تو آبادی کے بغیر ریاست کوئی وجود نہیں رکھتی۔ بھوکے انسان کے کوئی نظریا ت یا حب الوطنی جیسے اعلیٰ افکار نہیں ہوتے۔ بھوک کے نتیجہ میں سماج بدترین انارکی کا شکار ہو جاتا ہے اور اُس کے بعد کسی کے پاس بچانے کیلئے کچھ نہیں بچتا۔ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافے نے الیکشن پر اٹھنے والے تمام سوالات کا جواب دے دیا ہے کہ الیکشن مقرر وقت پر نہیں ہو رہے۔ نگران سیٹ اپ پی ڈی ایم کی آئینی مرضی سے بنے گا اور آئینی مرضی سے اتنی دیر تک چلتا رہے گا جب تک فضا پی ڈی ایم کو دو تہائی اکثریت دلانے کیلئے سازگار نہیں ہو جاتی۔یہ ملک روزانہ کی بنیاد پر حکومت کی ناقص پالیسیوں اور عمران نیازی کے نفرت انگیز ”سٹڈی سرکل“ پر چل رہا ہے۔وہ نفرت کو ہوا دے رہا ہے اور حکومت نفرت انگیز اعمال سرانجام دینے میں کسی پس و پیش سے کام نہیں لے رہی بلکہ انتہائی بے شرمی اور ڈھٹائی سے مہنگائی کے ہاتھوں دم توڑتے عوام سے ان کا آخری آکسیجن کا سلنڈر بھی چھین رہی ہے۔اب اِس بے رحم نظام کے وزیر خزانہ کو کیا معلوم کہ 10 گھنٹے زندگی بیچ کر 14 گھنٹوں کیلئے زندہ رہنے کا سامان خریدنے والا جب رات کو واپس لوٹتا ہے اور بجلی کی عدم موجودگی اور حبس کے اِس موسم میں جب اُس کا شیر خوار بچہ اُس کے سامنے بلک رہا ہوتا ہے تو اُس کے دل پر کیا بیتی ہے؟یا اگر اُس کی بیمار ماں یا باپ کی دوا کیلئے اُس کی جیب میں پیسہ نہ ہو تو وہ نجکاری کے منہ پر کیسے تھوکتا ہے؟ مسلم لیگ ن کے سیاسی اذہان بالکل نہیں جانتے کہ مہنگائی ہمیشہ نفرت انگیز بیانیوں کی سب سے زرخیز زمین رہی ہے۔آئین میں صرف الیکشن وقت پر کرانے کا نہیں لکھا ہوا اس میں اُن تمام ضرورتوں اور سہولتوں کا بھی ذکر ہے جو پاکستان کے ہرشہری کو بلا تفریق فراہم کرنا ہیں لیکن کیا کوئی بل کبھی پاکستانی عوام کی ضرورتوں کیلئے ہنگامی بنیادوں پر پیش ہوا ہے؟ کیا کوئی عدالت پاکستانی عوام کے آئینی حق کیلئے جس کا تعلق اُس کی ضروریات زندگی سے ہُو لگائی گئی ہے؟
کیا پاکستان کی انتظامیہ عام آدمی کو انسان سمجھتی ہے؟ تو اِن تمام سوالوں کا جواب نہیں میں ہے۔ مجرموں کا ایک ٹولہ ہر سال اقتدار میں آ کر پاکستانی عوام کیلئے مزید پریشانیاں پیدا کرتا اور چلا جاتا ہے۔ جمہوریت تو کیا پاکستان کی بدقسمت یہ ہے کہ اسے آمریت بھی خالص میسر نہیں آئی۔ ہر جمہوریت پسند کے اندر ایک آمر اور ہر آمر کو تھوڑے ہی عرصے بعد یہ زُعم ہو جاتا ہے کہ عوام میں اُس کی مقبولیت کا گراف خطرے کے نشان سے کراس کر گیا ہے اور وہ ”جمہوریت پسند جمہوروں“ کی ایک نئی کھیپ پیدا کرجاتا ہے جو آنے والے دن میں پاکستان میں جمہوریت کا کھیل کھیلتی رہتی ہے۔ آج پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے دعویدار میاں محمد نواز شریف اور عمران نیازی دونوں نے آمروں کی حمایت کی لیکن میاں نواز شریف آمر کے وزیر اعلیٰ بھی بنے اور بعد ازاں وزیر اعظم بھی لیکن عمران نیازی مشرف کو ریفرنڈم جتوا کر تائب ہوا اور قوم سے معافی مانگی کہ میں آئندہ کبھی فوج سے مدد طلب نہیں کروں گا لیکن 2010 ء میں وہ ایک بار پھر جرنیلوں کی گود میں بیٹھا ہوا تھا اور آج انتہائی ڈھٹائی سے کہتا ہے کہ میں نے بائیس سال جدوجہد کی ہے۔ہرا لیکشن اور ہر آمریت نے پاکستانی عوام کو سوائے دکھوں کے کچھ نہیں دیا لیکن اِس کے باوجود پاکستانی عوام نے ہمیشہ اِن پراعتماد کیا ہے لیکن شاید یہ آخری اعتماد بھی متزلزل ہو رہا ہے کیونکہ عوام کا مسئلہ مہنگائی ٗ بیروزگاری ٗلاقانونیت ٗعدمِ تعلیم ٗ عد م سہولیا ت صحت جبکہ سیاستدانوں کا صرف الیکشن ہے۔ الیکشن بھی ہو جائے گا اور اُس میں کبھی نہ پورے ہونے والے وعدوں کا انبار پاکستانی عوام کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا اور آہستہ آہستہ یہ سیاسی شعبدہ باز اپنے ہی وعدوں کو ”چھو منتر“ کرکے اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو جائیں گے۔ 130ارب ڈالر کا مقروض ہے کوئی بتائے گا کہ یہ ڈالر کس کس نے لئے اور کہاں کہاں خرچ ہوئے؟اِس قرض سے پاکستانیوں پرکیا خرچ کیا گیا اور اب تک پاکستانی سود کی مد میں کتنا کچھ واپس کرچکے ہیں؟ ہمارے وسائل کہاں کہاں استعمال ہو رہے ہیں اور اُن سے کون کون مستفید ہو رہا ہے۔ ہم نے تو قومی غیرت تک گروی رکھ کر ڈالروں کی ریس میں حصہ لیا تھا اور پھر قومی غیرت بھی ہاتھ سے گئی اور ڈالر تو پاکستانی عوام نے کبھی دیکھے بھی نہیں۔ مراعات اور غیر ضروری ریاستی اورحکومتی اخراجات نے پاکستان کی اکثریت کو عذاب میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب تک حکومت اپنی عیاشیوں اور ریاست اپنے غیر اہم ایجنڈوں پر کام کرنا بند نہیں کرے گی ہر روز بڑھتی مہنگائی ایک دن سب کچھ نگل جائے گی۔ یہاں اِس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ کچھ کم عقل لوگوں کا خیال ہے کہ بھوک ٗ مہنگائی ٗ لاقانونیت یا بیڈ گورنس کسی بڑے انقلاب کا پیش خیمہ بن سکتی ہے! تو میں ایسی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں یہ تمام اسباب عوامی غم و غصہ میں اضافہ کرکے کسی انارکی کی وجہ تو بن سکتے ہیں لیکن انقلاب ہمیشہ تربیت سے آتے ہیں کیونکہ انقلاب کسی حکومت کو ہٹانا یا ریاست پر قبضہ کرنے کا نام نہیں بلکہ ایک بے رحم معاشی نظام اور بیڈ گورنس کے مقابل ایک نیا قابل ِ قبول معاشی نظام اور گڈ گورنس کی فراہمی کا نام ہے۔اعداد کے جادوگر پاکستانی عوام کو معاشی اعداد و شمار بھی اُس زبان میں بتاتے ہیں جن کا اُنہیں کوئی علم ہی نہیں ہوتا۔ اب جی ڈی پی کو سمجھانے کیلئے پاکستانی کرنسی کے بجائے ڈالر میں اعداد و شمار پیش کیے جاتے ہیں تاکہ اربوں روپے کے کروڑ بنا کردکھائے جا سکیں اور اسی طرح کتنے لوگ ہیں جو جی ڈی پی ٗ شرح مہنگائی اور آبادی میں اضافے کے باہمی تعلق کو جانتے ہیں؟ عام آدمی کا تعلق تو ضروریات ِزندگی سے ہوتا ہے جنہیں وہ زندگی بیچ کر خرید رہے ہوتے ہیں۔ جب تک عام آدمی کو سکھ کا سانس نہیں آتا اتنی دیر تک پاکستانی عوام ہر قسم کا ”سیاسی چورن“ خریدتے رہیں گے اور کوئی مائی کا لعل چاہتے ہوئے بھی کسی غلط بیانیے کو دفن نہیں کرسکتا۔اب آپ کے پاس دو ہی آپشن ہیں جمہوریت کے ساتھ زندہ رہنا ہے تو اشرافیہ کواپنی مراعات سے دست بردار ہونا پڑے گا ٗ بے رحم احتساب کرنا پڑے گا ٗ غیر ضروری اخراجات اور فضول پروگرام بند کرنا ہوں گے اور اگر ایسا ممکن نہیں تو پھر اسے شمالی کوریا بنا کر آپ زندہ رہ سکتے ہیں پاکستان میں یہ سب نہیں چلے گا کہ یہی لوح محفوظ پر ازل سے لکھا ہے۔