کل فیس بک پر سکرول کرتے ہوئے برادرِ محترم کرامت حسین بخاری صاحب کا تازہ کلام نظر نواز ہوا۔ ہاتھ سے لکھے ہوئے دو اشعار تھے۔ عجب غضب کا کلام تھا، ایک وادی تحیر میں لے گیا۔ لمحوں کے درمیان کچھ عجب سا ربط استوار ہوا کہ ضبط کو بہا لے گیا۔ یہ فقیر دم بخود ہو کر رہ گیا، ایک عجب کیف آور کلام تھا۔ منقبت کے دو اشعار تھے، ان اشعار نے ایک عجب کیفیت باندھ دی۔ پہلے وہ اشعار سن لیں اور ان کا لطف لیں۔
عقیدت بڑھتی جاتی ہے ، مودت ہونے والی ہے
کہ مجھ پر آلِ اطہر کی عنایت ہونے والی ہے
نہا دھو کر نیا جوڑا پہن کر کیوں نہ جاؤں میں
لحد میں مجھ کو مولا کی زیارت ہونے والی ہے
منقبت کے یہی اشعار زیرِ نظر کالم کا محرک ثابت ہوئے۔
وہ ذات جس نے یہ کائنات بنائی— ظاہری بھی اور باطنی بھی— جس نے اس کائنات کو چلانے کے کلیات و قوانین بنائے— ظاہری بھی اور باطنی بھی — اس نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ صداقت کا قافلہ کرب و بلا سے گزرے گا۔ تاریخِ انسانی کا مطالعہ کریں تو ایسے معلوم ہوتا ہے جیسے یہ قاعدہ کسی فطری قاعدے اور کلیے کی طرح اٹل ہے۔ صداقت محض ایک لفظ نہیں بلکہ جہانِ معنی ہے۔ یہ معنی ایک بھرپور وجود بھی رکھتا ہے—اور اس معنیِ وجود کے ظہور کے لیے اسے وادی کرب سے گزرنا ہوتا ہے۔ گویا کسی تخلیقی کلیے کی طرح یہ بھی ایک ازلی ابدی کلیہ ہے۔ جس طرح ایک انسانی وجود کو اس دنیا میں لانے کے لیے بے پناہ کرب سے گزرنا ہوتا ہے، اسی طرح شاید صداقت بھی ایسا وجود ہے جسے اس عالمِ شہود میں ظہور کرنے کے لیے وادیٔ کرب و بلا سے گزرنا ہوتا ہے۔
صداقت کا دعویٰ ہر کس و ناکس کے پاس ہوتا ہے لیکن دشتِ کرب و بلا سے گزرنا فقط ان ہی کا کام ہوتا ہے جن کا نام صداقت کے ہم معنی بن چکا ہوتا ہے۔ کس کا دعویٰ کہاں تک سچا ہے، ماننے والے تو مان گئے لیکن معروضی دنیا میں صداقت کا جوہر دکھانے کے لیے قافلہ حق و صداقت کو کرب و بلا سے گزرنا ہے۔ غور طلب بات ہے، جب جھوٹا بھی سچا کلام سنانا شروع کردے تو سمجھ لینا چاہیے کہ صداقت خطرے میں ہے۔ جب مسندِ اسلام پر جھوٹا شخص فائز ہو جائے تو یہ سمجھنا کچھ مشکل نہیں کہ اسلام خطرے میں ہے۔ ایسے میں صداقت کے امین پر
لازم ہو جاتا ہے کہ وہ میدانِ میں بنفسِ نفیس اترے اور صداقت کی شہادت دے۔
دونوں طرف قرآن پڑھا جا رہا ہے، بلکہ مصحف نیزوں پر بھی بلند کیا جا رہا ہے، جب کہ صداقت کا پیکر اپنے پیروکاروں کو پکار رہا ہے،خبردار! دھوکے میں نہ آنا۔ اس سے قبل بھی صادق اور امین ذاتؐ متنبہ کر چکی تھی کہ قرآن اِن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ تاریخ نے دیکھا کہ جنہوں نے وجودِ صداقت کی آواز پر لبیک کہا، وہ فلاح پا گئے، اور کتاب کو کافی سمجھنے والے مصحف کی طرف لپکے اور خسارے میں رہ گئے۔ ثابت ہوا کہ قرآن پڑھنے میں اور قرآن دیکھنے میں فرق ہوتا ہے — کم و بیش اتنا ہی فرق جتنا زمین و آسمان میں ہوتا ہے۔
صداقت ماننا آسان ہے، صداقت پہچاننا مشکل ہے۔ عقیدے اور عقیدت کی دھن میں صداقت والوں کی بات کرنا اور دہرانا آسان ہے، یہ ہم ایسے کم کوش لوگوں کے حصے میں آتا ہے، لیکن صداقت کی پہچان کرنا کارِ دشوار ہے۔ صداقت پہچاننے کے لیے صداقت والوں کے ساتھ چلنا ہوتا ہے۔ قرآن میں صرف یہ نہیں کہ سچ بولو بلکہ یہ ہے کہ سچوں کے ساتھ ہو جاؤ— "کونوا مع الصادقین" جھوٹ سے بچنے کا حکم ہے — "واجتبوا قول الزور"۔ گویا منکرات سے بچنا ایک ذاتی اور انفرادی عمل ہے، یہ تنہائی میں بھی ممکن ہے، اپنی تنہائی اور اپنے ضمیر سے ہم کلام ہونے سے ہم بیشتر منکرات سے بچ سکتے ہیں، لیکن صداقت اپنی اپنی عرضی صداقت نہیں ہوتی، بلکہ ایک معروضی حقیقت ہے، جس تک پہنچنا لازم ہے۔ معروضی حقیقت ہمیں ایک وجودِ زندہ دار کی صورت میں دکھائی دے گی۔
مرشدی حضرت واصف علی واصفؒ فرمایا کرتے کہ سچ وہ ہے جو سچے کی زبان سے نکلے۔ یعنی صادق کی زبان سے ادا ہونے والی بات کو صداقت کہیں گے۔ مرشد نے کس خوب صورتی سے اہل فکر و فلسفہ کے لیے یہ معمہ حل کردیا— یعنی معیارِ مطلق کائنات نہیں بلکہ وجہ کائنات ہے۔ صداقت کی تلاش میں انسان کو خارج کا محتاج نہیں کیا گیا۔ معیار انسان ہی قرار پایا ہے۔ صداقت کا معیار خارج نہیں بلکہ باطن ہے اور وہ بھی اس طرح نہیں کہ ہر کسی کے لیے صداقت اپنی اپنی ہو کر رہ جائے اور ہوا میں بکھر کر رہ جائے— بلکہ خارج میں بھی اس کا تعین ایک معیارِ مطلق کی صورت میں موجود ہے۔ جتنی بڑی صادق ذات ہوگی، اتنی بڑی صداقت ہوگی۔ صادقِ مطلق ایک ہی ذات ہے — جو وجہ تخلیقِ کائنات ہے۔ صادق ذاتؐ کا فرمایا ہوا حرف حرف صداقت ہے۔ اسی ذاتِ والا صفات نے فرمایا کہ حسینؓ مجھ سے ہیں اور میں حسینؓ سے ہوں۔ اس صداقت پر غور کر لیا جائے تو ماضی، حال اور مستقبل کے بہت سے عقدے حل ہو جاتے ہیں۔ صداقت کا معیارِ مطلق اب رہتی دنیا تک وہی شہسوارِ کربلا ہے جس کی اقتدا میں حق و صداقت کے قافلے رواں دواں ہیں۔
محبت، اخلاص اور صداقت ہم زاویہ ہیں۔ یہ ایک ہی حقیقت کا سہ رخی منشور ہے۔ اسی منشور سے رنگ رنگ کی شعاعیں نکل کر کونین میں پھیل رہی ہیں اور نصابِ زیست مرتب کر رہی ہیں۔ محبت، اخلاص اور صداقت قربانی طلب کرتے ہیں۔ قربانی دینے والا ہی اپنے دعوے کی سچائی ثابت کرتا ہے۔ راہِ قربت میں اگر کوئی چیز قریب تر ہے تو وہ یہی منشورِ صداقت ہے۔قربِ حقیقی رکھنے والے قربانی سے گزر جاتے ہیں— گزرتے ہیں اور سرخرو ہوتے ہیں۔ یہ سرخروئی ظاہر پرستوں کی نظر سے اوجھل ہوتی ہے۔ ظاہر پرست اور مفاد پرست ظاہر پر فتویٰ لگاتے ہیں اور کامیابی اور ناکامی کے فیصلے فوری کرنا چاہتے ہیں۔ فوری فیصلے چاہنے اور کرنے والے،فیصلے کے دن خوار ہوتے ہیں۔ ایک فیصلہ فیصلے کے دن ہوتا ہے اور ایک فیصلہ تاریخ کی عدالت میں ہوتا ہے۔ تاریخ کی عدالت کا فیصلہ بھی فیصلہ کن ہوتا ہے۔
محبت اور اخلاص کی طرح صداقت بھی وادی کرب و بلا سے بلاخوف و خطر گزرتی ہے۔ صداقت حق ہے اور حق صداقت! صداقت حق کی طرح لاشریک ہے — دوئی پسند نہیں، شرکت میانِ حق و باطل قبول نہیں کرتی—اپنی یکتائی پر کبھی سمجھوتا نہیں کرتی۔ مصلحت اور مداہنت صداقت کا شیوہ نہیں رہا۔ یہی وجہ ہے صداقت تنہا رہ جاتی ہے۔ مصلحت پسندوں اور مفاد پرستوں کا ایک انبوہِ کثیرہے جن کی چشمِ بصارت و بصیرت دولت و حشمت کی چکا چوند سے خیرہ ہو جاتی ہے، عوام الناس وہ مال و زر کے زور پر شام کے محلات سے پھیلائی ہوئی ڈس انفرمیشن کے جال میں پھنس جاتے ہیں۔ ادھر پیکرِ صداقت میدانِ کرب وبلا میں تنہا کھڑاہے۔ یہ تنہائی دراصل اک نغمہِ یکتائی ہے۔ یہ پیکرِ یکتائی اپنے ہم مشرب نفوس کے علاوہ کسی کی ہمراہی و معاونت قبول نہیں کرتا۔ حریمِ ناز کا محرمِ راز پوری کائنات میں تنہا ہے۔ عرشِ معلیٰ اور کربلائے معلٰی قاب قوسین کی حد تک ایک دوسرے کے قریب ہیں۔ حسینؓ تنہا نہیں، واحد ہے!!!