اسلام آباد: پاکستان نے بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے سلامتی کونسل کی صدارت کے دوران تین ترجیحات رواداری کی آواز، مفاہمت اور بین الاقوامی قانون کی حمایت پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت نے اپنے ہمسایوں کیساتھ ہمیشہ مذاکرات کی کوششوں کو سبوتاژ کیا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ کی جانب سے ترجیحات کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ نے میڈیا کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی وزیر خارجہ نے ماہ اگست کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت کیلئے تین ترجیحات رواداری کی آواز،مفاہمت اور بین الاقوامی قانون کی حمایت کا تعین کیا ہے۔ بہتر ہے بھارت ان ترجیحات کا چیمپئین بننے سے قبل ان اصولوں کی پاسداری کرے۔
ترجمان نے کہا کہ یہ ایک ایسے ملک کی انتہائی منافقت ہے جس نے رواداری، مذاکرات کی کوششوں اور بین الاقوامی قانون کو منظم طریقے سے پاوں تلے روند ڈالا ہے اور خود کو ان تین ترجیحات کی آواز کے طور پر پیش کرتا ہے۔
ترجمان نے کہا کہ انتہاء پسند ’ہندو توا‘ کا نظریہ تمام بھارتی ریاستی اداروں میں سرائیت کر چکا ہے جبکہ آر ایس ایس اور بی جے پی حکومت کا ریکارڈ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے حقوق کی خلاف ورزیوں کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ دنیا کو رواداری کا درس دینے سے قبل بھارت اپنے ملک کے اندر معاملات درست کرے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ اگر بھارت امن کیلئے ایک قدم بڑھائے گا تو پاکستان دو قدم بڑھائے گا تاہم مذاکرات کے بجائے بھارت نے پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اور غیر قانونی اقدام کے ذریعے ماحول کو مزید خراب کیا۔
زاہد حفیظ چودھری نے کہا کہ اب یہ بھارت کی ذمہ داری ہے کہ وہ بامعنی مذاکرات کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے جس سے خطے میں امن کو فروغ ملے۔ جہاں تک بین الاقوامی قانون کا تعلق ہے تو بھارت گزشتہ سات دہائیوں سے زائد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے قراردادوں کی کھلم کھلا مخالفت کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پانچ اگست 2019ء کے یکطرفہ اور غیر قانونی بھارتی اقدامات بھی یو این چارٹر، سلامتی کونسل کے قراردادوں، فورتھ جینوا کنونشن سمیت بین الاقوامی قانون کے منافی ہیں جبکہ بھارت خود کو تینوں ترجیحات کا چیمپئین کے طور پر پیش کرنے سے قبل ان اصولوں کی پاسداری کرے۔