آزاد کشمیر کے عام انتخابات ہوچکے، اب حکومت بنانے کے لیے جوڑ توڑ ہورہاہے۔ جوڑ کم توڑ زیادہ ہورہا ہے، موجودہ حکمرانوں کی جہانگیر ترین سے اگر صلح ہوتی ترین صاحب آج مظفرآباد میں بیٹھ کر الیکشن سے پہلے ہی تحریک انصاف کی وہاں حکومت بناچکے ہوتے،……آزاد کشمیر کے انتخابات میں بھی سیاسی جماعتوں اور اُن کے امیدواروں کی جانب سے بداخلاقی کے بدترین مظاہرے کئے گئے۔ سیاسی بداخلاقیوں اور عدم برداشت کادائرہ اب دوسرے شعبوں تک بھی پھیل چکا ہے۔ اور خوفناک واقعات اور سانحات کی صورت میں اِس کے جو نتائج مسلسل نکل رہے ہیں حکمرانوں کو اس کی کوئی پروا ہی نہیں ہے، اسلام آباد میں ایک لڑکی یا خاتون نورمقدم کو جس بے دردی سے قتل کیا گیا یہ عدم برداشت ہی کی ایک خوفناک شکل ہے، ہمارے حکمران اِس قتل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لے رہے ہیں، کاش کوئی اِس پہلو سے بھی سوچے”گزشتہ دو تین برسوں میں عدم برداشت کا جوکلچر خود ہمارے حکمرانوں نے متعارف کروایا کہیں یہ قتل اُسی کے نتیجے میں تو نہیں ہوا؟ ہم ہاتھ جوڑ کر صرف سیاسی نہیں اصلی حکمرانوں کی خدمت میں بھی عرض کرتے ہیں عدم برداشت کی پھیلتی ہوئی اِس آگ کو بجھانے کا کوئی اہتمام کرلیں، ورنہ کوئی کتنا ہی ”طاقتور“کیوں نہ ہو اِس آگ سے بچ نہیں پائے گا، …… آزاد کشمیر میں اب ظاہر ہے پی ٹی آئی کی حکومت بنے گی، اکثریتی جماعت ہونے کی وجہ سے بننی بھی اُسی کی چاہیے۔ یہاں حکومت بنانے کے لیے نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایک بار پھر اکٹھے ہوگئے ہیں، جب بھی کسی مقصد میں ”ناکامی“ یقینی ہو یہ لازماً اکٹھے ہو جاتے ہیں، اور اگر کسی مقصد میں ”کامیابی“ یقینی ہو ان کی آپس میں پُھوٹ پڑ جاتی ہے، بلکہ یہ آپس میں ہی ”پُھوٹ“ پڑتے ہیں، اب چونکہ اُنہیں معلوم ہے یہ مِل کر حکومت نہیں بناسکتے لہٰذا ان کا اتفاق ہو گیا ہے، اگر اُنہیں یقین ہوتا یہ آپس میں مل کر حکومت بناسکتے ہیں اِن کی جوتیوں میں دال بٹ رہی ہوتی، ایک بار مرکز میں اُنہوں نے مِل کر حکومت بنائی تھی، حکومت پیپلزپارٹی کی تھی اُس میں چند وزیر نون لیگ کے شامل کرلیے گئے تھے، اُن سب وزراء سے حلف اُس پرویز مشرف نے لیا تھا جسے پیپلزپارٹی والے بے نظیر بھٹو کا قاتل قرار دیتے تھے اور نون لیگ والے اپنی منتخب حکومت کا قاتل قرار دیتے تھے، اقتدار چیز ہی ایسی ہے جس کے حصول کے لیے کوئی اُصول پیش نظر نہیں رکھا جاتا۔ شرم و حیا واخلاقیات کا تو کوئی تصور ہی اِس میں نہیں ہے،…… آزاد کشمیر کے حالیہ انتخابات میں پیپلزپارٹی کے ساتھ ایک بار پھر ہاتھ ہوگیا، اِس کا انکشاف کسی اور نے نہیں خود پیپلز پارٹی ہی کے ایک رہنما نبیل گبول نے اگلے روز ایک ٹی وی چینل پر یہ کہہ کے کیا کہ ”ہمارے ساتھ وعدہ اٹھارہ سیٹوں کا تھا مگر ہمیں گیارہ سیٹیں دی گئیں“، پیپلزپارٹی کو اگر آزاد کشمیر کے الیکشن میں واقعی گیارہ سیٹیں دینے کا وعدہ کیا گیا تھا تو یہ اِس جماعت پر ”خصوصی شفقت“ ہے، ورنہ سندھ میں اِس جماعت کی جوکارکردگی ہے، اور اِس سے قبل دوبارمرکز میں اِس کی جو کارکردگی تھی، اُس کی بنیاد پر تو آزاد کشمیر کے انتخابات میں اِس جماعت کے ساتھ صرف ایک آدھ سیٹ کا وعدہ کرنا ہی بنتا تھا۔ بہرحال اٹھارہ سیٹوں کا کہہ کر گیارہ سیٹیں دے کر پیپلزپارٹی کے ساتھ جو ہاتھ ہوا ویسا ہی ہاتھ کچھ عرصہ قبل بھی اُس کے ساتھ ہو چکا ہے، سینٹ کے انتخابات میں بھی اُنہیں شاید یہی یقین دلایا گیا تھا یوسف رضا گیلانی کو چیئرمین سینٹ بنایا جائے گا، وزیراعظم عمران خان کی ایک ”دھمکی کام نہ دکھاتی یہ وعدہ شاید وفا ہو ہی جاتا، ……اُوپر میں یہ عرض کررہا تھا نبیل گبول سے جب یہ پوچھا گیا ”آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں اُن کی جماعت کو اٹھارہ سیٹیں دینے کا وعدہ کس نے کیا تھا؟ مسکراتے ہوئے، اور ذرا شرمندہ نہ ہوتے ہوئے وہ بولے”ظاہر ہے یہ وعدہ عوام نے کیا تھا“۔ عوام کو اُنہوں نے بہت بے وقوف سمجھ رکھا ہے چنانچہ اُنہیں پورا یقین ہے عوام اُن کے اِس سفید بلکہ سیاہ جھوٹ پر آنکھیں بند کرکے یقین کرلیں گے کہ ”یہ وعدہ اُن سے عوام نے کیا تھا“ وہ اِس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر ہیں عوام اگر اتنے بے وقوف ہوتے تو آج بھی مرکز میں پیپلزپارٹی کی حکومت ہوتی، وفاق کی ”اکلوتی جماعت“ کو عوام نے بھی ایک صوبے تک محدود کردیا ہے، اگلے الیکشن صاف شفاف اور صرف کارکردگی واہلیت کی بنیاد پر ہوئے ایک صوبہ (سندھ) بھی اُن کے ہاتھ میں شاید نہیں رہے گا، البتہ شہید بی بی کے مبینہ قاتلوں کے ساتھ راہ ورسم بڑھا کر صرف ایک صوبے میں ہی نہیں، دیگر صوبوں یا مرکز میں بھی ایک بار پھر اپنی حکومتیں قائم کرنے میں وہ کامیابی حاصل کرسکتے ہیں، …… کامیابی حاصل کرنے کا ایک واحد ذریعہ اب اُن کے پاس یہی رہ گیا ہے، شاید اِسی لیے ہی پی ڈی ایم سے بھی وہ الگ ہوگئے ہیں۔ آج اگر پی ڈی ایم اپنی توپوں کا رُخ صرف اورصرف وزیراعظم عمران خان کی طرف رکھے، کسی اور قوت کو اشارتاً بھی تنقید کا نشانہ نہ بنائے، یہ شاید خود ہی پی ڈی ایم سے ”رجوع“ فرمالیں گے، …… جہاں تک آزاد کشمیر کے عام انتخابات میں نون لیگ کو اُس کی توقع سے بہت کم سیٹیں ملیں تو اُس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود نون لیگ ہے، جس طرح پیپلزپارٹی اِس وقت ”دوکشتیوں“ کی سوار ہے اور اسے سمجھ نہیں آرہی کون سی کشتی اُسے پار لگاسکتی ہے کون سی ڈبوسکتی ہے؟ اِسی طرح نون لیگ بھی دو ”بیانیوں“ پر سوار ہے، اُسے بھی سمجھ نہیں آرہی کون سا بیانیہ اُسے دوبارہ اقتدار میں لاسکتا ہے؟ اور کون سا بیانیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اقتدار سے اُسے دور رکھ سکتا ہے؟ جب تک یہ دونوں جماعتیں ”کنفیوژ“ رہیں گی ان کے ساتھ اسی طرح کے ”دھوکے“ اِسی طرح کی ”وعدہ خلافیاں“ ہوتی رہیں گی جس کا انکشاف اگلے روز نبیل گبول نے کردیا، ممکن ہے یہ انکشاف کرتے ہوئے وہ اُس حالت میں ہوں جس میں جھوٹ بولنا ممکن نہیں ہوتا، نبیل گبول کی جماعت کو چاہیے اُن پر رات کو ہونے والے ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کی پابندی عائد کردے، ورنہ یہ نہ ہو کسی روز اچانک یہ انکشاف بھی وہ کردیں کہ پیپلزپارٹی پر لُوٹ مار کے جو الزامات لگائے جاتے ہیں وہ بالکل درست ہیں، ……البتہ دونوں جماعتوں کی ”کنفیوژن“ کا ایک فائدہ مستقبل میں بھی دونوں جماعتوں کی مرکزی قیادت کو شاید ہوتا رہے کہ اُن پر کرپشن کے جو کیسز ہیں وہ اُسی طرح لٹکے رہیں جس طرح وہ چاہتے ہیں!!