گزشتہ سے پیوستہ
ڈاکٹر برہان احمد فاروقی نے حضرتِ مجدد کے نظریہ توحید میں جن دلائل کے ساتھ ابنِ عربی کے تصورِ وحدت الوجود سے اختلاف کیا ہے اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ جہاں ابنِ عربی اصل اور ظّل کی مماثلت پر مُصر ہیں، مجدد صاحب کے نزدیک اصل اور ظّل آپس میں ہرگز مماثل نہیں ہو سکتے، ظل کی حیثیت اصل کی نقل سے زیادہ کچھ نہیں۔ اسے ایک حسّی مثال سے یوں واضح کیا جا سکتا ہے کہ کسی شخص کا سایہ اس کے حقیقی وجود سے لمبا نظر آئے جیسا کہ عام مشاہدے میں آتا ہے تو اسکا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ شخص بھی لمبا ہو گیا ہے جس کا یہ سایہ ہے۔ اس قبیل کے کتنے ہی نکتے مجدد صاحب کے مکتوبات میں دیکھے جا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے ڈاکٹر فاروقی جیسا گہرا ادراک، عمیق نظر اور کشفی تجربہ درکار ہے جو اب تو نایاب کے حدود میں داخل ہے۔ حضرتِ مجدد کا سارا زور قرآن و سنت کی اتباع پر تھا اور یہی موقف فاروقی صاحب نے عمر بھر اپنائے رکھا۔
فاروقی صاحب نے گو کہ زیادہ نہیں لکھا لیکن جو لکھا کانٹے کے تول لکھا۔ مرحوم سراج منیر کی نظر کی داد دیے بغیر نہیں رہا جا سکتا کہ انہوں نے ادارہ ثقافتِ اسلامیہ کی سربراہی کے زمانے میں برہان احمد فاروقی صاحب کو غیر رسمی طور پر ادارے سے وابستہ کیا۔ اس زمانے میں فاروقی صاحب کا مذکورہ ادارے میں اکثر آنا جانا رہا اور غالباً سراج ہی کے ایما سے ڈاکٹر صاحب نے ”منہاج القرآن“ اور ”قرآن اور مسلمانوں کے زندہ مسائل“ ایسی معرکہ آرا کتابیں ترتیب دیں جو اُنہوں نے بڑے اہتمام سے شائع کیں۔ ڈاکٹر صاحب کے پی ایچ ڈی کے مقالے کی طرح ان دونوں کتابوں میں بھی حکمت اور گہرے تجزیے کے لعل و گہر جا بجا آنکھوں کو ٹھنڈک اور دلوں کو سرور بخشتے ہیں گو کہ بعض جگہ ان کا اسلوبِ تحریر شاید اپنے اجمال کے باعث مشکل ہو جاتا ہے۔
حضرتِ مجدد اور اقبال کی طرح ڈاکٹر فاروقی کو بھی یہ قوی ایقان حاصل تھا کہ اسلام خدانخواستہ ختم شدہ قوت نہیں، ایک عظیم عُمرانی اور ایمانیاتی نظام نامہ ہے۔ مغرب کی اسلام سے صدیوں کی معاندانہ روش اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ اسلام ایک زند ہ قوت ہے اور مغرب کا مریضانہ حد تک مادہ پرست اور دولت کا پجاری سیکولر نظام اسے اپنے لیے ایک بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔ سیدھی بات ہے کہ دشمنی زندوں سے کی جاتی ہے، مُردوں سے نہیں! اس نکتے سے فاروقی صاحب خوب آگاہ تھے۔ ان کی آرزو تھی کہ مسلم معاشرے اخلاقی جدوجہد کرنے والے روحانی الذہن افراد تیار کریں۔ انہیں یقین تھا کہ قومیں نعروں سے زندگی نہیں پاتیں۔ وہ اس نظام نامے کو مانیں گی جس میں دُنیوی اور اخروی کامیابی کی ضمانت مہیا کی گئی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حضورؐ کے پردہ فرما جانے کے باعث قرآنِ حکیم کو حجّت قرار دیتے تھے۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ اہلِ اسلام کو حضورؐ کے اس ارشاد کو ہمیشہ پیشِ نگاہ رکھنا چاہیے کہ ”میں تمہارے درمیان دو اَمر بطور وراثت چھوڑے جارہا ہوں: اللہ کی کتاب اور اپنی سنّت“۔
ڈاکٹر صاحب علمِ تاریخ کے بارے میں بھی ایک منفرد زاویہ نگاہ رکھتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہم نے تاریخ کو عروج و زوال کی توجیہ کا علم قرار دے رکھا ہے اور تاریخ کا قرآنی تصور نظر انداز کر رکھا ہے۔ ان کے خیال میں مسلمانوں کو تاریخ کے راویوں اور تاریخ نگاروں کے ضمن میں وہی کسوٹی استعمال کرنی چاہیے تھی جو ہم نے حدیث کے راویوں کے سلسلے میں برتی اور جسے اسماء الرجال کا علم کہتے ہیں۔ انہیں تاریخ نگاری کے امام ابنِ خلدون سے بھی شکایت تھی کہ اس نے معاشرے کے زوال کا سبب اجتماعی زندگی میں عصبیت کے زائل ہونے کو قرار دیا تھا۔ وہ یہ نہ سمجھ پایا کہ عصبیت اللہ کے ساتھ اخلاص کے باقی نہ رہنے سے زائل ہوتی ہے۔
فاروقی صاحب ایک ایسے معاشرے کو وجود میں لانے کے آرزومند تھے جس کی بنیاد وحدتِ انسانی کے اسلامی تصور پر استوار ہو۔۔۔ ایک ایسا معاشرہ جس میں فرد اور خود معاشرہ غم اور خوف سے محفوظ رہیں۔ یہ معاشرہ اخلاقی اعتبار سے صحت مند، معاشرتی اعتبار سے عادلانہ اور سیاسی اعتبار سے کلمہ طیبہ کی بنیاد پر معاہدہ عمرانی کو وجود میں لا کر سیاسی تضادات سے پاک ہو۔ آج ہم اپنے وطنِ عزیز کی صرف سیاسی صورتِ حال ہی پر نظر ڈال لیں تو نگاہیں کیسے کیسے دل شکن مناظر دیکھنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ باہمی کردار کشی، دشنام طرازی اور الزام تراشی اس سیاسی نظام کے رستے ہوئے ناسور ہیں۔ وقفے وقفے سے رائج نام نہاد جمہوری نظام ایک مسلسل مناقشت پر اپنی بنیاد رکھتا ہے جس میں حزب اقتدار اور حزبِ اختلاف زہر میں بجھی تلواریں سونتے ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آتی ہیں۔ اسلام کے نظام ِ سیاست میں ایک ایسے طرزِ عمل کی کہاں گنجائش ہے جہاں حزبِ اقتدار کے بالمقابل حزب اختلاف ایک مستقل اور قانونی ادارے کے طور پر موجود ہو اور اس کا کام صرف مخالفت برائے مخالفت ہو اور مقصود حریف کی گردن ناپنا! آخر یہ کیسا نظامِ سیاست و معاشرت ہے جو درخت کی جڑوں کو آگ دکھاتا اور پتّوں پر پانی چھڑکتا ہے! فاروقی صاحب متمنی تھے کہ کلمہ توحید پر مبنی ایک ایسا نظامِ سیاست وجود میں آئے جس کے تحت حاکم اور محکوم اور مطاع اور مطیع دونوں کے لیے اللہ کے نازل کردہ احکام یکساں واجب تعمیل ہوں اور عمل کا محرک حقوق طلبی کے بجائے انجام دہی قرار پائے۔
ڈاکٹر صاحب نے اپنی طویل زندگی کا بڑا حصہ اسی سوچ بچار، ملّی دردمندی اور آرزوئے انقلاب میں گزار دیا کہ ان کی امنگوں کا مرکزِ نگاہ پاکستان اور خود ملتِ اسلامیہ کن آفاقی اساسی اصولوں پر دنیا میں سر بلند اور آخرت میں سرخرو ہو سکتی ہے۔ مغربی استعمار کی معنوی اولاد نے انہیں کسی قدر کے قابل نہ جانا۔ ایک اچھے متوسّط گھرانے کا یہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ فرد تھا جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر پاکستان آیا اور محکمہ بحالیات کی ایک عارضی مگر ذمہ دار پوسٹ پر ہوتے ہوئے بھی اس نے اپنے یا اپنے خاندان کے لیے جائیداد کا کوئی کلیم داخل نہ کیا۔ جسے ۱۹۶۵ء میں ایک سازش کے تحت ایم اے او کالج کی وائس پرنسپلی سے فارغ کیا گیا۔ جسے پنجاب یونیورسٹی مستقل بنیادوں پر اپنے ہاں جذب نہ کر سکی اور جسے لیکچروں کی بنیاد پر ملنے والا معاوضہ بھی چھ چھ مہینے بعد ادا کیا جاتا تھا! کیا برمحل شعر مجھے یاد آیا: ز منقارِ ہُما در کامِ زاغاں طُعمہ اندازد/ مزاجِ آسمانِ سفلہ پرور را تما شا کن (کمینوں رذیلوں کو پالنے والے آسمان کا طور طریقہ دیکھو کہ اس نے ہما جیسے بادشاہ ساز پرندے کو اس کام میں لگا دیا ہے کہ کووّں کے منہ میں دانہ ڈالا کرے!)۔ ڈاکٹر صاحب کبھی کبھی ایک خاص کیفیت میں مظہر جان جاناں کا یہ شعر پڑھا کرتے تھے:
پھر میری خبر لینے وہ صیاد نہ آیا
شاید کہ مرا حال اسے یاد نہ آیا
اس سب کے باوجود وہ ایک آزاد منش انسان تھے۔ کبھی ان باتوں کو دل پر نہیں لیا۔ ہمارے ایک کرم فرما طارق محمود اعوان نے لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو اپنی دولتِ فقر پر ناز تھا۔ ایک دفعہ کسی بڑے منصب پر فائز ان کے ایک ملنے والے نے کہا: تعجب ہے کہ آپ کی صحت بھی ویسی کی ویسی ہے اور طنطنہ بھی جوں کا توں ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے جواباً کہا: جہاں تک صحت کا تعلق ہے تو وہ تو کوئی ایسی چیز نہیں کہ کسی سے ادھار لی جائے، رہا طنطنہ تو اس کا راز بینک بیلنس نہیں، مورل بیلنس ہے۔ بہرحال اسے ہماری قومی بدقسمتی کہیے کہ ہم نے اس گوہر نایاب کو نا صرف یہ کہ درخورِ اعتنا نہ جانا بلکہ وقتاً فوقتاً ایذا دیتے رہے شاید صرف اس لیے: کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اِس زمانے میں۔ ایذا رسانی، افترا پردازی اور دروغ گوئی کا یہ کھیل ان دنوں روز افزوں ہے اور شرافت منہ چھپائے گوشہ گیر ہے۔ انجم رومانی نے برسوں پہلے کہا تھا: چھاؤں کچھ جن کی خنک اور گھنی ہوتی ہے/ ان درختوں کی یہاں بیخ کنی ہوتی ہے/ بوالہوس دودھ کی نہروں میں نہاتے ہیں یہاں / قسمتِ عشق وہی کوہ کنی ہوتی ہے۔
وفات سے قریباً ڈیڑھ برس پہلے ان کی اہلیہ چل بسیں۔ برادرم خضر یٰسین راوی ہیں کہ مرحومہ شعر و ادب کا بڑا پاکیزہ ذوق رکھتی تھیں اور منتخب شعروں کی ایک بیاض بھی بنا رکھی تھی۔ میں تعزیت کے لیے حاضر ہوا۔ اہلیہ کے غم میں صاحب فراش تھے مگر اس سے زیادہ ملتِ اسلامیہ کے غم میں نڈھال تھے۔ علاقائیت کے بڑھتے ہوئے خطرات پر دل گرفتہ تھے۔ میں نے پوچھا اس ساری صورت حال کا حل کیا ہے۔ فرمایا سورۃ الفرقان میں ارشاد ہے کہ ہم نے ہر پیغمبر کے لیے مجرموں میں سے ایک دشمن پیدا کر دیا۔ یہ دشمن پیغمبرانہ دعوت کی مزاحمت کرتا ہے، اور پیغمبر اور اس کے پیروکار اس مزاحمت کی مزاحمت کرتے ہیں اور بالآخر یہی اہلِ حق کامیاب رہتے ہیں۔ گویا حزب اللہ کا وجود میں لانا ضروری ہے کہ حزب الشیطان کا مقابلہ کر کے اسے شکست دے سکے۔ پھر فرمانے لگے: جمہوریت کثرت کے اصول پر قائم ہے اور نبی اکرمؐ کو ایک موقع پر انتباہ کیا گیا کہ اگر تم ان لوگوں کی اکثریت کے کہنے پر چلو جو زمین میں بستے ہیں تو وہ تمہیں اللہ کی راہ سے بھٹکا دیں گے۔ پھر قدرے جوش میں آ کر کہنے لگے: اگر اہلِ اسلام واقعی قرآن کو حجت بعد الرّسل سمجھتے اور اس میں موجود ارشاد ”کہہ دو حق آ گیا اور باطل شکست کھا گیا“، کی گارنٹی کو واقعی صدقِ دل سے صحیح سمجھتے تو صورت حال مختلف ہوتی مگر افسوس ان کی صفیں کج اور دل پریشاں ہیں۔ پھر میری درخواست پر میرے حق میں دعا کی کہ اللہ آپ سے وہ کام لے جو وہ چاہتا ہے۔ میں نے آمین کہی اور بوجھل دل سے اٹھ آیا۔
۔۔۔۔ اور پھر جولائی کی ایک تپتی شام کو خضر یٰسین کا فون آیا: استاد صاحب چل بسے۔ نماز عشا کے بعد جنازہ ہوا۔ تدفین کے موقع پر چند اِنے گنے افراد ہی رہ گئے تھے: خورشید رضوی، جعفر بلوچ، خضر یٰسین، طارق محمود اعوان اور ڈاکٹر صاحب کے دونوں صاحب زادے۔ ہم نے بھیگی آنکھوں سے خالص سونا سپردِ خاک کیا، لحد کو مٹی دی، دعا کی اور لوٹ آئے۔
کاش اتنے بڑے شخص کے افکار کی ترویج کے لیے ملک کی کسی بڑی یونیورسٹی میں ان کے نام پر مسند قائم ہو سکتی، وائے ما، اے وائے ما، اے وائے ما!