نفرت نہیں! قومی ہم آہنگی

Asif Anayat, Nai Baat Newspaper, e-paper, Pakistan

پچھلے کافی عرصہ سے ٹی وی دیکھنا کم کم ہی ہوتا ہے۔ کون وزیراعظم نامہ، موسمی خبریں، کرائم رپورٹنگ، 2002ء سے حکومتوں میں رہنے والے چہرے نئے پاکستان میں بھی دیکھے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کو کو توال شہر سے مخاصمت کی وجہ سے ایک جھوٹا مقدمہ میں جیل ہو گئی۔ مرزا صاحب مہینوں جیل میں رہے جب رہا ہو کر باہر آئے تو دوستوں نے پوچھا کہ نوشہ جیل میں کچھ تکلیف اٹھانا پڑی ہو گی؟ مرزا صاحب نے کہا کہ مجھے ایک فکر تھی کہ آموں کا موسم کہیں جیل میں ہی نہ گزر جائے اور دوسرا انتہائی تکلیف دہ صورت حال سے مسلسل سامنا رہا۔ یار لوگوں نے پوچھا نوشہ وہ کیا؟ مرزا صاحب نے بتایا کہ ان کی بیرک کا دربان شاعری کرنے کا شوقین بلکہ اپنے تئیں شاعر تھا صبح ہوتے ہی اس کی ڈیوٹی شروع ہو جاتی اور وہ مرزا صاحب کو اپنے اشعار سنایا کرتا۔ مرزا صاحب قیدی تھے۔ قیدی اپنی مرضی سے جا بھی کہاں سکتا تھا۔مرزا اسد اللہ خان غالب کہتے ہیں کہ وہ دربان شاعر تقریباً روزانہ 12/10 نئے اشعار سنایا کرتا اور ایک ایک شعر مرزا صاحب کے لیے 50/50 دروں /کوڑوں سے زیادہ تکلیف دہ ہوتا۔یہی حالت آج کل ہمارے مین سٹریم میڈیا کی ہے۔ اس میں بیان کی جانے والی خبریں تجزیے اور پروگرام خاص طور پر جن کا تعلق سیاست اور معاشرت سے ہے۔ مسلسل کوڑے یادرے بلکہ بعض اوقا ت تو یوں لگتا ہے جیسے روح ہی سنگسار ہوئے جا رہی ہے لہٰذا سوشل میڈیا ایجاد کرنے والے کا بھلا ہو اس کی وجہ سے چند پروگرام دیکھ لیتا ہوں۔ آج کے میڈیا کا ایک بہت بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ اس میں کہا بولا اور لکھا سب محفوظ رہتا ہے۔ جب تک کسی انسان کو کوئی سنتا نہ ہوں وہ جو مرضی اول فول بکے کچھ فرق نہیں پڑتا لیکن جب وہ کسی پوزیشن پر ہو تو اس کو محتاط طریقے سے بات کرنا چاہیے۔ حکمران ٹولے سے وابستہ لوگوں کو ہی دیکھ لیں تنہائی میں بھی نہ کی جانے والی باتیں میڈیا پر کہہ دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک پروگرام دیکھ رہا تھا جس میں عمران شفقت سید نے 1998ء میں ممنوعہ ٹائلیں ایکسپورٹ کرنے کے واقعہ کو دہرایا۔ جس میں 397باتھ روم ٹائلیں ڈیکلیئر کر کے لاہور سے لندن جا رہی تھیں۔ جمائما سمتھ کی طرف سے وہ ممنوعہ اشیاء اور خلاف قانون قرار دے کر روک دی گئیں۔ دراصل وہ ٹائلیں نوادرات میں تھیں۔ جن کا قانون کے مطابق بیرون ملک جانا ممنوعہ تھا۔ اس واقعہ نے مجھے متوجہ کیا کیونکہ ان دنوں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ خالد مسعود تھے جنہوں نے ٹائلیں روک دیں۔ اس کے سیمپلز آثار قدیمہ کو بھیجے جنہوں نے ان ٹائلوں کو نوادرات قرار دیا اور کسی مسجد کی ٹائلیں قرار دیں۔ ابھی ان کی انکوائری ہونا باقی تھی کہ یہ کیسے حاصل کی گئیں اس سے پہلے اس حوالہ سے کیا ہوا؟ مگر عمران خان چونکہ ہر کام کو سیاسی بناتے ہیں اس مقدمہ کو بھی سیاسی بنا دیا کہ بڑا ظلم اور انتقامی کارروائی کی گئی۔ حالانکہ وہ صریحاً قانون شکنی، خلاف ضابطہ اور سزا واری کے زمرے میں آنے والا مقدمہ تھا۔ہماری میڈیا پالیسی کے ذریعے لوگوں کو حقائق سے دور نہیں رکھنا چاہیے۔ میں ان لوگوں کو بھی جانتا ہوں جو مشرف کی آمد پر قرض خوروں کے خلاف قلم کو کرپان بنا کر میدان میں اترے مگر وہی کرپان جمہوریت پسندوں اور جمہوری قوتوں کے خلاف چل گئے وجہ یہ تھی کہ خود قرضہ ہڑپ کیے ہوئے تھے۔ اسامہ بن لادن کے قتل پر 24 گھنٹوں کے اندر بدلتے ہوئے تجزیے سنے۔ جب تک ہم غیر جانبدار نہیں ہوتے انصاف نہیں ہو سکتا۔ عمران خان جس کی چاہے عزت تار تا رکر دے کوئی قدغن نہیں اور اس کے جواب میں اگر کوئی بات کرے تو حد ادب حد تمدن حد اخلاقیات کا خیال رکھنا اس کا فرض بن جاتا ہے۔ میں نے نواز شریف کے جدہ جانے پر ایک بڑے کرانتی کاری کالم نگار کا لکھا ہوا پڑھا کہ گریٹ بھٹو سولی چڑھ گئے ٹھیک ہے بہادری ہے لیکن شہید کے ساتھ ہمیں غازی کے مرتبے کو مدنظر رکھنا ہو گا گویا اس وقت نواز شریف کا باہر جانا غازی ہو کر پلٹنا تھا۔ہمارے ہاں مشرقی پاکستان میں اسمبلی اجلاس کو گریٹ بھٹو صاحب کا ملتوی کرانے کا مطالبہ تو سب کو یاد ہے مگر شیخ مجیب الرحمن کی تقریر اب سوشل میڈیا پر ہے جس میں وہ کہتا ہے کہ ”میرے پیسے سے خریدی گولی میرے لوگوں پر مت چلاؤ۔ مارشل لاء اٹھنے تک اسمبلی میں نہیں جائیں گے، میرے لوگوں کا قتل عام بند کرو، پہلے مارشل لاء اٹھاؤ ورنہ ہم اسمبلی کا رخ نہیں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔ ادھر گریٹ بھٹو صاحب کے مخالفین اور ناقدین سب ان کے جھولے سے جھول رہے ہیں۔حمود الرحمن کمیشن رپورٹ، جنرل نیازی، جنرل عمر، جنرل یحییٰ و ایوب، شیخ مجیب الرحمن کی تقریرو چھ نکات اور کردار وضاحت کے لیے کافی ہیں کہ اسباب اور حالات کیا تھے اور کیوں پیدا ہوئے؟ 
1962ء میں ایوب خان نے بنگالیوں کو علیحدہ ہونے کا پیغام دیا کسی کو یاد ہے کہ نہیں آج مویشی قسم کے سیاست دان محسنوں کو غدار اور آرٹیکل 6 کی زد میں آنے والوں کو محب وطن کہہ رہے ہیں۔ جب تک ہم تاریخ درست نہیں کرتے۔ تاریخ سے سبق حاصل نہیں ہو گا جب تک ہم غیر جانبدار نہیں ہوتے ہم رائے عامہ درست نہیں کر سکتے۔ سقوط ڈھاکہ کی بنیاد بھی نفرت تھی آج حکمران نفرت کو پالیسی اور منشور بنائے ہوئے ہیں۔ کلمہ حق کہنا سب سے افضل جہاد ہے مگر کس کے خلاف کیا قیدیوں کے خلاف کلمہ حق یا ظالم حاکم کے خلاف آج پہلے تعین کرنا ہو گا کہ کلمہ حق کس کے خلاف کہنا ہے کئی لوگ آج بھی سابقہ حکمرانوں کے متعلق بات کر کے اپنی پھنے خانی کا بڑا چرچا کرتے ہیں حالانکہ 25 جولائی 2018ء کے انتخابات 25 جولائی 2021ء کے انتخابات 5 جولائی 1977ء کا تسلسل ہی ہے۔ پارلیمانی نظام میں حکومت پر بڑی ذمہ داری ہوا کرتی ہے۔ مگرموجودہ وزیراعظم چونکہ حقیقی ووٹوں سے آئے نہیں لہٰذا انہیں پارلیمانی نظام کی کچھ پروا نہیں۔
نفرت نہیں قومی ہم آہنگی وقت کا تقاضا ہے جو حکمران ٹولے کا فرض ہے مگر حکمران نفرت کی بنیاد پر سیاست کرتے ہیں نفرت فروش ہیں خواب فروش قوم کو موجودہ حکومت نے صرف نفرت، جھوٹ، منافقت اور نا اہلی کا تحفہ دیا ہے جبکہ حکمرانوں کو پولیٹیکل سکورنگ سے نکل کر اپنی ذمہ داری پر غور کرنا چاہیے یہ صرف حکمران ہیں مقبول نہیں ہیں اور اب سیاسی طور پر عبرت ناک ماضی بن چکے ہیں۔ حالیہ کشمیر انتخابات اور سیالکوٹ انتخاب مقبولیت کا معیار نہیں۔ لوگوں کو بھوک، بے روزگاری، جعلی مقدمات، دکھوں اور مصیبتوں سے نکالنا مقبولیت کا معیار ہے نہ کہ احتساب کے نام پر انتقام اور نفرت کو منشور اور پالیسی کے طور پر نافذ کرنا لہٰذا نفرت نہیں وطن عزیز میں قومی ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔