”ہرڈ سائیکالوجی“تبدیل کرنے کی ضرورت

11:27 AM, 3 Aug, 2021

 چند سال پہلے ترکی میں ایک بھیڑ نے نجانے کیوں پہاڑی سے چھلانگ لگا دی اور اس کی دیکھا دیکھی پندرہ سو مزید بھیڑیں جو لائن کی صورت میں اس کی پیروی کر رہی تھیں۔انہوں نے (عوام کی طرح بغیر دیکھے اور بغیر سوچے) چھلانگیں  لگا دیں اور 450بھیڑیں موت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔ لاشوں کا ڈھیر اونچا ہونے کی وجہ سے باقی کچھ  بچ گئیں اور کچھ زخمی ہو گئیں۔ اس صورت حال کو علم کی روح سے  ہرڈ سائیکالوجی کہتے ہیں یعنی ریوڑ کی نفسیات۔ہرڈ سا ئیکالوجی کو عام زبان میں بھیڑ چال کہتے ہیں۔
ہرڈ تھیوری کا مطلب کسی انفرادی عمل کا پورے گروپ یا گروہ کا فالو کرنا یا عمل کرنا ہے اور وہ بھی  براہ راست اور بغیر کسی ڈائریکشن کے(جیسے موجودہ حکومت چل رہی ہے) یہ عمل (پاکستانی عوام) میں عمومی طور پر اور خصوصی طور پرجانوروں میں دیکھا جاتا ہے جیسے مچھلیوں کا ایک سمت تیرنا یا پرندوں کا اڑنا یا پھر بھیڑوں کا چلنا مگر انسانوں میں بھی یہ عمل اس وقت بہت زیادہ دیکھا جاتا ہے جب 
سیاست یا مذہب کا معاملہ ہو کیونکہ اس میں مرکزی یا بنیادی ہدایات سے انحراف کر لیا جاتا ہے اور صرف ایک بھیڑ چال میں لوگ چلتے ہیں اور اپنے اور سماج کے لیے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ اس وقت دنیا کا سب سے بڑا چیلنج ہی مذہبی اور سیاسی بھیڑ چال ہے اور اس کی سب سے زیادہ اور طویل العمر مثالیں پاکستان میں پائی جاتی ہیں۔2018ء کے الیکشن موجودہ وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے ”نئے پاکستان“کا نعرہ لگا دیا۔پاکستانی عوام کا ایک بے ہنگم ہجوم اس نعرے کو حرف آخر سمجھ کر اس کے پیچھے ہو لیا۔فرد واحد نے بھی سوچنے کی جسارت نہ کی کہ اس کیپٹن کی ٹیم میں شاہ محمود قریشی،فواد چودھری،فردوس عاشق اعوان اور دیگر بے بہا لیڈروں کی کرپٹ اور نکھٹو ٹیم ہے۔جو پہلے بھی کئی دفعہ عوام کے جذبات کے ساتھ کھیلنے کے علاوہ عوام کی امیدوں پر پانی پھیر چکی ہے۔مگر کیا ہوا؟عوام کی ہرڈ سائیکالوجی کام کر گئی۔پاکستان تحریک انصاف جیت گئی۔عمران خان وزیراعظم بن گیا۔تین سال میں نہ نیا پاکستان بنا نہ ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ نوکریاں ملیں،نہ گھر بنے،نہ وزیر اعظم سفید شلوار قمیص پہن کر،سر پر جناح کیپ رکھے سائیکل پر دفتر گیااور تو اور گورنر ہاوسز کو یونیورسٹیوں میں تبدیل کرنے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہ ہوا۔آخر اس بیماری دل نے کام تمام کیا اور اور غریب کو روٹی کے لالے پڑ گئے۔۔ لالے سے یاد آیا ”لالہ عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی“ نے بھی اپنی کوئی کسر نہ چھوڑی، ہارمونیم اٹھایا اور ”جب آئے گا عمران۔۔۔ بنے گا نیا پاکستان“ ترانہ نما گیت گا کر عمران خان کو اپنے نیازی ہونے کا ثبوت دینے کے ساتھ ساتھ عوام کی ہرڈ سائیکالوجی جگانے میں سنگ میل کردار ادا کیا۔۔ستم ظریفی کی انتہا اس وقت ہوئی جب عطاء اللہ خان کو کسی بھی تہذیبی اور ثقافتی ادارے کی ذمہ داری تک نہ سونپی گئی۔۔عطاء اللہ خان عیسیٰ خیلوی ان تمام زیادتیوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ایک بار پھر سینیٹ کے ٹکٹ کے لیے اپنی پوری توانیاں بروئے کار لاتے ہوئے پرائم منسٹر ہاؤس کے کئی چکر کاٹے مگر عمران خان ہر دفعہ ہرجائی پن کا مظاہرہ کیا اور عطاء اللہ خان قسمت کا لکھا سمجھ یہی گیت گاتے رہے۔آئے تو سہی دیکھو تو ذرا ہم کیسے جیئے تیری خاطراور اپنا ہارمونیم اور طبلہ نکال کر اپنے سابق کام میں مصروف ہو گئے۔
قارئین! اب آپ دوسری مثال دیکھیے۔ موجودہ وزیراعظم نے ملک کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کا نا صرف دعویٰ کیا بلکہ ”ببانگ دہل“ اعلان کیا۔مجھے حیرت بات پر ہے کہ اتنا بڑا دعویٰ خان نے کن حقائق اور کن حالات کو مدنظر رکھ کر کیا۔۔ریاست مدینہ میں پیغمبر آخرالزماں خاتم النبیینؐ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق ؓ جیسے سچے،حضرت عمر ؓجیسے نڈر، بے باک،با اصول شخص،حضرت علیؓ جیسے بہادر اور حضرت عثمانؓ جیسے غنی لوگ موجود تھے۔جو صدق و صفا،محبت و وفا،پاکباز و باحیا،عدل و انصاف کا پیکر،قرآن و سنت کی تصویر،عمل کا منہ بولتا ثبوت اور دین کا پیکر تھے۔اب تصویر کا دوسرا رخ دیکھیے۔پہلی بات تویہ 
کہ جناب خود توہم پرستی کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔اس کی عملی شکل آپ کی موجودہ خاتون اول ہیں۔ریاست مدینہ کے علمبرداروں میں توہم پرستی کا شائبہ تک نہیں تھا۔دوسری بات ریاست مدینہ کے وہ جلیل القدر صحابی جن کا ذکر درج بالا سطور میں کیا گیا وہ نبیؐ کے دست و بازو تھے اور جناب کی کابینہ اور دست و بازوؤں میں زلفی بخاری،شاہ محمود قریشی،فواد چودھری،فردوس عاشق اعوان، جہانگیر ترین، مراد سعید،فیصل واوڈا،عثمان بزدار،چودھری برادران، امین گنڈا پور،اسد عمر،مراد راس،شیریں مزاری، شفقت محمود،راجہ یاسر ہمایوں،علی زیدی، فخر امام، اعظم سواتی،شبلی فراز جیسی کابینہ ہو گی۔ وہاں ریاست مدینہ جیسی ریاست کا وجود میں آنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔۔یہ ہرڈ سائیکالوجی کی دوسری بڑی مثال ہے۔اسی طرح چوہتر سال کی تاریخ دیکھی جائے تو ہمیں ہرڈ سائیکالوجی کی سیکڑوں مثالیں ملیں گی۔جن کی بنا پر ملک کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی لہو کے گھونٹ پینا پڑے اور غربت نے عوام کو آڑے ہاتھوں کے بجائے ترچھے ہاتھوں لیا۔۔اب ہماری حالت ایسی ہو چکی ہے کہ ہم دین کے ہیں اور نہ ہی دنیا کے رہے ہیں۔۔بقول شاعر
محبت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی
تیسرا راستہ نہیں ہوتا
اگر ہم اسی طرح ہرڈ سائیکالوجی کا شکار ہوتے رہے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم بھوک کے ہاتھوں اس قدر مجبور ہو جائیں گے کہ ایک کوڑی بھی ہمارا مول نہیں ہوگا۔جہالت کا اور ہمارا چولی دامن کا ساتھ ہو گا اور گونگے،بہرے اور اندھے تصور کیے جائیں گے۔۔بقول پروفیسررانا غلام محی الدین:
جسے پایا نہیں تھا، کھو رہا ہوں 
محبت! تخلیہ! میں سو رہا ہوں 
حسیں ساعت! ذرا تاخیر سے آ
یقینِ وصل! پلکیں دھو رہا ہوں 
میں اتنا تھا نہ…… جتنا ہو چکا تھا
میں ایسا ہوں نہ…… جیسا ہو رہا ہوں 
ابد! تسکین کر…… فارغ تو ہو لوں 
ابھی…… بارِ امانت…… ڈھو رہا ہوں 
تشکر…… یاد میں …… رکھا گیا ہوں 
تحیر…… میں وہاں …… جا تو رہا ہوں 
کہانی…… مجھ سے استفسار مت کر
تجھے معلوم ہے، میں جو، رہا ہوں 
رہے تا…… تیری بینائی………… سلامت
زمیں! میں تجھ میں آنکھیں بو رہا ہوں 

مزیدخبریں