امریکہ ہمارا دوست ہو یا نہ ہو لیکن اس کے برعکس ہم ہمیشہ اس کے دوست رہے ہیں اور آئندہ بھی رہیں گے۔ ڈالر بڑی اہمیت اختیار کر چکا ہے۔ ایک ڈالر ایک سو ساٹھ روپے کا جو ہوا۔ ماضی میں جس کے حصول کے لیے ہم نے امریکہ کے واری واری جاتے ہوئے سوویت یونین کے ٹکڑے کر دیئے۔ غیروں کی جنگ کو اپنی جنگ میں بدل کر پہلے مذہبی گروہوں کو مجاہدین بنایا ان سے اپنی مرضی کا جہاد کرا کر ان کو دہشت گرد بنا دیا پھر طالبان کو دو گروہوں میں تقسیم کر کے ایک کو گڈ طالبان اور دوسرے کو بیڈ طالبان ڈکلیئر کیا تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے نہایت چالاکی سے ڈو مور کے حصول کے لیے یہ اعتراف کیا کہ ہم نے پاکستانی مجاہدین کو سپورٹ کر کے بہت بڑی غلطی کی تھی جس کا نقصان دونوں ملکوں کو اٹھانا پڑا ہے۔ یوں پاکستان کو ایک بار پھر دباؤ میں لا کر دارالحکومت اسلام آباد میں سفارتخانے کے نام پر نجی چھاؤنی قائم کر لی جو تاحال قائم ہے۔ یہ کوئی پرانی بات نہیں کہ امریکی ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس نے لاہور میں ہمارے دو شہریوں کو قتل کر کے پاکستان سے واپس امریکہ جا کر ایک کتاب ’دی کنٹریکٹر‘ لکھی جس میں اس نے صاف لفظوں میں یہ لکھا کہ اگر آج میں اپنی بیوی بچوں کے درمیان ہوں تو اس کا سہرا چیف آئی ایس آئی جنرل شجاع پاشا صاحب کے سر جاتا ہے۔ اس لیے ایک بات تو طے ہے کہ ہم جو مرضی کر لیں۔ ہمارے مفادات ہمیں امریکہ سے زور ہونے نہیں دے سکتے۔ حاضر سروس طاقتور لوگوں کے امریکہ میں کاروبار
ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ کی طرف دیکھنے کی ہماری عادت بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم بیرونی اثر و رسوخ، دباؤ اور ذاتی مفادات سے نکلنے کے لیے کبھی متحرک نہیں ہوئے۔ اس لیے اب یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم خالصتاً ملکی مفاد میں کوئی فیصلہ کر پائیں۔ مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف کے اس بیان سے بخوبی اندازہ ہو جانا چاہیے کہ امریکہ نے پاکستان سے اڈے مانگنے کا ماحول بنایا ہوا تھا۔ اصل میں تھا نہیں بنایا ہوا ہے۔ اس لیے مستقبل قریب جو ہونے والا ہے یہ اس کی طرف واضح اشارہ ہے ویسے بھی امریکہ کو اڈے دینا ہماری مجبوری بنتی جا رہی ہے۔ اس امر کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کابل حکومت کی دن بدن گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور افغان طالبان تیزی سے قابض ہوتے جا رہے ہیں جس سے افغانستان میں ایک بار پھر خانہ جنگی شروع ہونے والی ہے اور یقینا اس خانہ جنگی سے پڑوسی ممالک تاجکستان، ازبکستان، ایران اور بالخصوص سب سے زیادہ مضر اثرات پاکستان پرمرتب ہوں گے کیونکہ نقل مکانی کی صورت میں نا صرف افغان مہاجرین کی اکثریت کا رخ بلکہ افغان طالبان بھی پاکستان میں داخل ہوں گے جو کہ ہمارے لیے سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ بہرحال یہ تو ہونا ہی ہے آج نہیں تو کل اس لیے حکومت کو پہلے ہی افغان مہاجرین کو پاکستان میں ایک خاص ایریا تک محدود رکھنے کے لیے جامع پالیسی ترتیب دینا ہو گی۔ انہیں پاکستان بھی کہیں بھی جانے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ ماضی کی غلطیوں سے سبق حاصل کرنا چاہیے۔ یہ ہی ایک واحد طریقہ ہے جس پر عمل کر کے دہشت گردوں سے بچا جا سکتا ہے۔ یہ ہمارے لیے کسی امتحان سے کم گھڑی نہیں ہے۔ اس وقت جو افغانستان کی صورت حال ہے وہ تیزی سے بگڑتی جا رہی ہے۔ افغان طالبان نے کابل حکومت کے گرد گھیرا تنگ کر دیا ہے۔ امریکہ کسی صورت بھی افغان طالبان کو کھلی چھٹی نہیں دے گا۔ امریکہ ہر قیمت پر افغان طالبان کے خلاف کارروائی کرے گا اور امریکہ کو فوجی کارروائی کرنے کے لیے پاکستان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ وہ اپنے طیاروں اور ڈرونز کی پرواز کے لیے پاکستانی فضائی راستہ اور اڈے ضرور استعمال کرے گا جس کے حصول کے لیے وہ اپنا ہر حربہ چاہے وہ معاشی ہو یا سفارتی ضرور استعمال کرے گا۔ اس مشکل وقت میں امریکہ کے تعاون کرنے کے سوا ہمارے پاس دوسرا کوئی راستہ نہیں ہو گا۔ یہ کہنا کہ امریکہ کو اڈے دینے کی صورت میں افغانستان کی داخلی جنگ میں ایک بار پھر امریکی اتحادی کے طور پر دیکھا جائے گا تو یہ سوچ وقت کے لحاظ سے حقیقت کے بالکل متصادم ہے کیونکہ پاکستان کی اپنی بقا اب اسی میں ہے کہ افغانستان میں افغان طالبان قابض نہ ہوں۔ گڈ اینڈ بیڈ طالبان دونوں امن کے لیے خطرے کی علامت ہیں۔ مقبوضہ کشمیر کی الیکشن مہم چھوڑ کر اس وقت میں بلاول بھٹو زرداری صاحب کا امریکی دورہ اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم امریکہ کے دوست ہیں اور آئندہ چند دنوں میں یہ راز بھی افشاں ہو جائے گا کہ وہ کس کے کہنے پر اور کیوں امریکہ گئے تھے۔