بوٹسوانا کی سیاسی تنازع پر 20 ہزار ہاتھی جرمنی بھیجنے کی دھمکی

01:29 PM, 3 Apr, 2024

نیوویب ڈیسک

لندن: بوٹسوانا کے صدر نے سیاسی تنازع پر 20 ہزار ہاتھی جرمنی بھیجنے کی دھمکی دے دی۔

اس سال کے شروع میں جرمنی کی وزارت ماحولیات نے تجویز پیش کی تھی کہ شکار کی ٹرافیوں کی درآمد پر سخت پابندیاں ہونی چاہئیں۔

اس حوالے سے بوٹسوانا کے صدر Mokgweetsi Masisi نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ اس سے صرف بوٹسوانی باشندے ہی غریب ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ تحفظ کی کوششوں کے نتیجے میں ہاتھیوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے، لیکن شکارسے ان کی آبادی قابو میں رکھنے میں  مدد ملتی ہے

مسٹر میسی نے جرمن میڈیا کو بتایا کہ جرمنوں کو ”جانوروں کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے، جس طرح سے آپ ہمیں بتانے کی کوشش کر رہے ہیں“۔ انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ "ہم جرمنی کو ایسا تحفہ پیش کرنا چاہیں گے،"انہوں نے مزید کہا کہ یہ کوئی مذاق نہیں ہے اور وہ اس آفر کا جواب نفی میں نہیں لیں گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملک دنیا کی ہاتھیوں کی تقریباً ایک تہائی آبادی (130,000 سے زیادہ) کا گھر ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ ہاتھی کے ریوڑ املاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں، فصلیں کھا رہے ہیں اور رہائشیوں کو روند رہے ہیں۔

خیال رہے کہ بوٹسوانا اس سے قبل انگولا جیسے ممالک کو 8,000 ہاتھی دے چکا ہے، اور موزمبیق کو مزید سینکڑوں ہاتھی دینے کی پیشکش کر چکا ہے، تاکہ آبادی کو کم کیا جا سکے۔

واضح رہے کہ بوٹسوانا نے 2014 میں ٹرافی کے شکار پر پابندی لگا دی تھی، لیکن مقامی کمیونٹیز کے دباؤ کا سامنا کرنے کے بعد 2019 میں پابندیاں اٹھا لی تھیں۔ملک اب سالانہ شکار کا کوٹہ جاری کرتا ہے، یہ کہتے ہوئے کہ یہ مقامی کمیونٹی کے لیے آمدنی کا ایک اچھا ذریعہ فراہم کرتا ہے اور یہ مشق لائسنس یافتہ اور سختی سے کنٹرول ہے۔

اس سے قبل  بوٹسوان نے پالتو جانوروں کی خوراک کے لیے ہاتھیوں کے استعمال پر غور کیا ہے۔

ہیومن سوسائٹی انٹرنیشنل کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق، جرمنی افریقی ہاتھیوں کی ٹرافیوں اور مجموعی طور پر شکار کی ٹرافیوں کا یورپی یونین کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ جس کی وجہ سے جرمن وزارت ماحولیات نے تجویز پیش کی تھی کہ شکار کی ٹرافیوں کی درآمد پر سخت پابندیاں ہونی چاہئیں۔

جرمن وزارت ماحولیات نے بتایا کہ بوٹسوانا نے اس معاملے پر جرمنی کے ساتھ کوئی تشویش ظاہر نہیں کی ہے۔ترجمان نے کہا کہ وزارت تاہم بوٹسوانا سمیت درآمدی قوانین سے متاثر ہونے والے افریقی ممالک کے ساتھ بات چیت کرتی رہی ہے۔

مزیدخبریں