اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما اور سابق وزیرِاعظم عمران خان کے معاون خصوصی زلفی بخاری نے وی نیوز کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ‘اگر ادارے نے اس وقت سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ملک کی سیاست میں 75 سالوں میں آپ نے کردار ادا کیا ہے اور اب اچانک اس موقع پر آپ کہہ رہے ہیں کہ ہم نیوٹرل ہیں۔ آپ کو پہلے ری سیٹ کرنا ہوگا، انتخابات کروائیں اور پھر خود کو سیاست سے لاتعلق کریں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ عدم اعتماد کا ووٹ لایا جائے، حکومت گرائی جائے، عمران خان کی گرفتاری کی کوشش کی جارہی ہو، ہمارے کارکنان کو گرفتار کیا جائے اور پھر کہیں کہ ہمارا سیاست سے کوئی تعلق نہیں’۔
سابق معاون خصوصی زلفی بخاری نے کہا کہ تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ 2 بڑی حقیقیتیں ہیں اور جب تک یہ دونوں مل کر نہیں بیٹھیں گے اور بات نہیں کریں گے تو ملک کیسے آگے چلے گا؟
انہوں نے کہا کہ ‘ہماری فوج بطور ادارہ اس ملک کی بڑی حقیقت ہے اور اب پچھلے 2 سالوں میں ایک نئی حقیقت سامنے آئی ہے اور وہ ہے عمران خان اور پی ٹی آئی۔ جب تک یہ دو حقیقیتیں مل کر نہیں بیٹھیں گی بات نہیں کریں گی ملک آگے نہیں چلے گا’۔
انہوں نے کہا کہ دونوں کو ایک دوسرے کے ساتھ بات کرنا ہوگی، چاہے وہ ابھی ہو یا حکومت کے بعد ہو۔ ہم مقبولیت کی وجہ سے حکومت میں آجائیں تو ہم حکومت کیسے چلائیں گے؟ بہت سی چیزیں ادارے کے ساتھ منسلک ہوتی ہیں۔ جب تک آرمی چیف اور عمران خان ایک میز پر بیٹھ کر بات نہیں کریں گے تو ملک کے لیے مشکلات بڑھتی رہیں گی’۔
زلفی بخاری کے مطابق ‘اسٹیبلشمنٹ اس وقت مائنس عمران خان سوچ رہی ہے اور ان کے لیے عمران خان اس وقت ناقابلِ برداشت ہیں، یعنی دونوں طرف اعتماد کی فضا بنانا ہوگی’۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ اگلے 3 سال جب تک موجودہ آرمی چیف رہیں گے تو کیا صورتحال اسی طرح کشیدہ رہے گی؟ ہم کس طرف جارہے ہیں؟
سابق وزیرِاعظم عمران خان کے قریبی ساتھی زلفی بخاری نے کہا کہ ‘آرمی سے ادارے کے طور پر اثر و رسوخ اور نظریہ لینا اور چیز ہے لیکن انفرادی طور پر ان پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ جب کسی فرد پر آپ حد سے زیادہ انحصار کرلیتے ہیں تو وہاں ذاتی پسند ناپسند آجاتی ہے جس کا نقصان حکومت کو اٹھانا پڑتا ہے’۔
زلفی بخاری نے کہا ہے کہ ہماری حکومت میں صرف آرمی چیف ہی نہیں بلکہ آرمی چیف کے علاوہ نمبر ٹو بھی اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ ایسا ممکن نہیں ہے کہ آرمی چیف کی سیاست میں مداخلت ہو اور ڈی جی آئی ایس آئی کی نہ ہو، ہمارے نظام میں آرمی چیف سے زیادہ ڈی جی آئی ایس آئی کا اثر و رسوخ ہوتا ہے۔