لاہور: تحریک انصاف کے سابق رہنما جہانگیر خان ترین نے کہا کہ میرا میڈیا ٹرائل کیا جارہاہے۔علم ہے فون کرکے کہا جاتا ہے کہ مجھ سے متعلق خبر چلائی جائے۔ کمپنیوں سے متعلق تحقیقات ایف آئی اے کا کام ہی نہیں یہ ایس ای سی پی اور ایف بی آر کا کام ہے۔
لاہور کی سیشن عدالت اور بینکنگ کورٹ سے عبوری ضمانت کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے جہانگیر ترین نے کہا کہ مقابلہ کرنا ہے تو عدالتوں میں آئیں اوچھے ہتھکنڈے استعمال نہ کیے جائیں۔ مجھے سب معلوم ہے کہ کیسے خبریں لیک کی جاتی ہیں۔ عزت اللہ کے ہاتھ میں ہے کسی انسان کے نہیں۔
انہوں نے کہا کہ صرف میں یاد ہوں باقی 80 شوگز ملز میں سے کسی میں کوئی مسئلہ نہیں؟صرف میری ملز کا کیس کیوں اچھالا جارہاہے؟ ایف آئی اے فرانزک آڈٹ میں جن کے نام تھے کیا انکو بھول گئے ہیں؟
جہانگیر ترین نے کہا کہ تینوں ایف آئی آرز سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ دس سال پہلے کی چیزیں جو کمپنی نے کیں اور فیصلے کیے ، انکو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ یہ ایف آئی اے کا کام نہیں ہے کہ کمپنی کے فیصلوں سے متعلق تحقیقات کرے۔ یہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کا کام ہے کہ وہ تحقیقات کرے۔ ایف آئی اے نے جان بوجھ کر منی لانڈرنگ کا لفظ ڈال کر تحقیقات شروع کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہم پیش ہوگئے ہیں، اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرینگے اور سرخرو ہونگے۔ میری عادت نہیں ہے کہ کسی چیز سے لاتعلقی کا اظہار کروں، مجھ پر ایف آئی آر ہے۔ہم عدالت میں ثابت کرینگے کہ مقدمہ بے بنیاد ہے۔
قبل ازیں عدالت نےبنکنگ عدالت اور سیشن عدالت نے ایف آئی اے کو جہانگیر ترین اور علی ترین کی گرفتاری سے روک دیا۔ایڈیشنل سیشن جج حامد حسین نے درخواستوں پر سماعت کی۔
جہانگیر ترین اور علی ترین عبوری ضمانت کیلئے عدالت میں پیش ہوئے۔ ایڈیشنل سیشن جج حامد حسین نے دونوں ملزمان کی کارپوریٹ فراڈ کے الزام کے تحت درج مقدمہ میں عبوری ضمانت 10 اپریل تک منظور کرلی۔
انٹی منی لانڈرنگ کی دفعات کے تحت درج کیس میں بنکنگ عدالت کے جج امیر محمد خان نے جہانگیر ترین اور علی ترین کی عبوری ضمانت منظور کرکے ایف آئی اے سے 7 اپریل کو ریکارڈ طلب کرلیا۔