کویت میں اقاموں کا کاروبار،غیر ملکیوں کے لئے درد سربن گیا

کویت میں اقاموں کا کاروبار،غیر ملکیوں کے لئے درد سربن گیا
کیپشن: عرب نیوز

کویت سٹی: کویتی ذرائع ابلاغ کے مطابق اقامے یعنی کویت میں کام کرنے کے عارضی اجازت نامے کے کاروبار کے خلاف قانون موجود ہونے کے باوجود اس کاروبار میں ملوث لوگ کویت حکومت اور بیرون ممالک سے آئے افرادکے لئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔
کویت سے جاری ہونے والے مقامی اخبار القبس کے مطابق یہ غیر قانونی کاروبار بہت منافع بخش ہے جو اس بزنس سے جڑے لوگوں کو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر آمادہ کرتا ہے اور وہ غیر ملکیوں کو بہترروزگار کا جھانسہ دے کویت لاتے ہیں اور پھر انہیں بے یارومددگار چھوڑ دیتے ہیں۔
اقامہ خریدنے والوں پر کویت پہنچ کر تلخ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ یہاں تو نہ روزگار ہے اور نہ ہی رہائش کیلئے کوئی کمرہ یا مکان ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا کوئی انتظام ہے۔کویتی اخبار کے مطابق یہ درست ہے کہ کویت کی متعلقہ وزارتوںکے وزرائ ہمیشہ یہ بیان دیتے ہیں کہ انسانی اسمگلنگ سے آہنی پنجے سے نمٹا جائے گا تاہم انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ اپنی جگہ برقرار ہے اور کویت کے لئے باعث بدنامی بھی بنا ہوا ہے۔
اخباراقامے کے دھندے سے متعلق متعددرپورٹس شائع کرچکا ہے اور اس نے متعلقہ ا داروں سے جاری ہونے والے اعدادوشمار بھی پیش کئے ہیں جن سے مندرجہ ذیل حقائق سامنے آئے ہیں۔
۔ ڈرائیور اور اس جیسے پیشے کیلئے ایک ویزہ کی فیس 1800دینار ہے۔
۔زیادہ ترآزاد ویزے چھوٹے منصوبوں ، تجارت اور ٹھیکیداروں کے نام سے نکالے جاتے ہیں۔
۔ایشیائی ممالک خصوصاً ہندوستان اور بنگلہ دیش کے کارکن سے سالانہ فیس کم از کم 800دینار لی جاتی ہے۔
۔ اقامہ کی تجدید کیلئے سالانہ 500دینار وصول کئے جاتے ہیں۔
عام طور پر یہ افراد گھریلو عملے کے زمرے میں آتے ہیں اوراس کے نام پر ویزا فروشی کا دھندہ عام کویتی شہری کررہے ہیں جو مقرر سرکاری سہولتوں سے ناجائز فائدہ حاصل کرتے ہیںجبکہ چھوٹے سائز کے تجارتی منصوبے چلانے والے بھی اس سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔
اقامہ ہولڈرز کی کویت میں کیا حالت ہے؟
اخبار لکھتا ہے کہ کام کی تلاش میںتارکین ہر روز صبح سویرے کسی گھر ، دفتر یا کہیں بھی روزگار ملنے کی امید پر انفرادی شکل میں اور کبھی کبھی گروپوں میں مخصوص مقامات کا رخ کرتے ہیں جہاں وہ ہاتھوں میں اپنے اوزار لئے گاہکوں کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی کام ملتا ہے تو اس معاوضے سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں ، اس کا کچھ حصہ اپنے پیاروں کو بھیج دیتے ہیں اور جو کچھ بچتا ہے اسے اقامے کی تجدید کے لیے رکھ لیتے ہیں۔
اقامے کی تجدید
اقامے کی تجدید کروانا بھی آسان کام نہیں۔ آزاد ویزے خریدنے والے تسلیم کررہے ہیں کہ انہیں باقاعدہ شکار کیا گیا ہے۔ ایک اقامہ پر 1400دینار سے زیادہ لاگت آرہی ہے جو کبھی لاگت 2ہزار دینار تک بھی پہنچ جاتی ہے۔
القبس اخبارکے مطابق محمد فواد نامی ایک غیر ملکی کارکن نے کہا کہ وہ خاندان کی معاشی حالت بہتر بنانے کے لیے کویت آئے تھے ۔ انہوں نے ”ویزے“ کیلئے ایک ہزار دینار دیئے اورطبی معائنے اور اقامے کی فیس الگ سے ادا کی، لیکن کویت پہنچنے پر پتہ چلا کہ یہاں روزگار حاصل کرنا بڑا مشکل کام ہے۔ اس لیے وہ مجبوراً قلی کے طور پر کام کر رہے ہیں جس کی ماہانہ اجرت (80) دینار سے زیادہ نہیں ہوتی اور اسی میں کمرے کا کرایہ بھی ادا کرتے ہیںجہاں ان سمیت ان کے سات ہم وطن بھی رہائش پذیر ہیں۔
ایک ہندوستانی کارکن محمد سلیم کا کہناہے کہ انہوں نے ویزا 1200دینار میں خریدا اور وہ ایک دن میں تین ملازمتیں کرتے ہیں جس میں بطور قلی کام کرنا، گاڑیاں دھونا اور قہوہ تیار کرنا شامل ہے۔۔ محمد سلیم کا کہناہے کہ کویت میں ان کی زندگی غیر انسانی ہے۔ ایک کمرے میں 12افراد رہائش پذیر ہیں۔ ماہانہ کرایہ 200دینار ہے۔ 12افراد مل جل کر کرایہ ادا کرتے ہیں اور ان کی بھی یہی حالت ہے۔
قانونی رائے
کویتی وزارت داخلہ کے تحت شعبہ اقامہ کے حکام کا کہنا ہے کہ کویتی قانون ویزوں کو کاروبار کا ذریعہ بنانے کی اجازت نہیں دیتا۔ کویتی لیبر قوانین میں آزاد ویزوں کا کوئی تصور نہیں۔ جو لوگ یہ کام کرتے ہیں وہ درحقیقت انسانیت تجارت جیسے مذموم کاروبار میں ملوث ہیں۔ وزارت داخلہ سمیت کویتی پارلیمنٹ اس تجارت میں ملوث شہریوں کے خلاف مسلسل کارروائی کرتا رہتا ہے۔ علاوہ ازیں ویزوں کے کاروبار میں ملوث افراد کے خلاف سزائیں بھی واضح ہیں۔