بپھرے ہوئے پانی اور برستے ہوئے مینہ نے پورے ملک میں جل تھل ایک کر دیا ہے۔ حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی سے دل ہلا دینے والی خبریں موصول ہو رہی ہیں۔ سیلاب نے سندھ، خیبر پختونخوا، فاٹا، بلوچستان اور پنجاب کے سیکڑوں دیہاتوں کے ساتھ ساتھ کئی شہروں کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیا ہے، ہر طرف تباہی و بربادی کے مناظر ہیں، انسانی آبادیاں گہرے پانی میں ڈوب کر اپنا نام و نشان کھو رہی ہیں، گھر ویرانوں میں تبدیل ہو رہے ہیں، سڑکیں اور دفاتر پانی میں تیر رہے ہیں، مصائب و آلام کا شکار افراد بے بسی اور بے کسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں، کئی افراد جانیں گنوا بیٹھے ہیں، کھاتے پیتے لوگ غذائی اشیاء کے حصول کے لئے ہیلی کاپٹروں کے منتظر ہیں کہ وہ اشیاء پھینکیں اور وہ اپنے پیٹ کا دوزخ بھریں۔
بارشیں، طوفان، سیلاب، گرمی اور سردی قدرتی نظام کا حصہ ہیں جن میں سے کسی کو بھی غیر متوقع نہیں کہا جا سکتا ہے، اب تو زلزلوں کی پیش گوئی کرنا بھی ممکن ہو گیا ہے اور ان پیشین گوئیوں کی بنیاد پر موثر منصوبہ بندی اور بروقت احتیاطی اقدامات سے نقصانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ہر سال سیلاب آنا اور اس سے تباہی مچنا اب معمول بنتا جا رہا ہے جب کہ اس کا مقابلہ کرنے کے لئے کوئی بروقت اقدامات نہیں اٹھائے جاتے ہیں۔ اتنے برس میں اب تک ہمیں یہ فیصلہ کر لینا چاہئے تھا کہ آبادیوں کو کہاں بسانا چاہئے، دریاؤں اور ندی نالوں کے قریب سے آبادیوں کو منتقل کر دینا چاہئے تھا تا کہ نقصانات اس قدر زیادہ نہ ہوں ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ جس طریقے سے ندی نالوں اور دریاؤں کے کناروں پر رہائشی علاقوں کی تعمیر کی جا رہی ہے اس سے سیلاب کا خطرہ دن بدن بڑھ رہا ہے۔ رہائش اور روزگار جیسے مسائل کے حل کے لئے لوگوں نے دریا کی گزر گاہوں کے کناروں پر مکانات اور ہوٹل بنا لئے ہیں گزشتہ 75 سال میں ملک میں درجنوں سیلاب آئے ہیں ہر سیلاب تباہی پھیلاتا رہا اور ان کی روک تھام کے لئے یہ نظام کوئی پیش رفت نہ کر سکا جو ان سے برباد ہوئے وہ برباد ہی رہے۔
گلوبل وارمنگ سے لے کر نباتات اور جنگلات کی بربادی ان سیلابوں کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ فیکٹریوں، ملوں، کارخانوں اور ٹریفک کے دھوئیں نے عالمی درجہ حرارت میں بے پناہ اضافہ کر دیا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ماحولیاتی مسائل میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جس کے باعث گلیشئیر تیزی سے پگھل رہے ہیں اور سطح سمندر بلند ہو رہی ہے۔ عالمی درجہ حرارت پر کنٹرول حاصل کر کے سیلاب اور طوفان کی تباہ کاریوں سے بچا جا سکتا ہے۔ سائنس کی بدولت جہاں انسان نے قدرت کو تسخیر کر کے اپنے لئے بے شمار فائدے سمیٹے ہیں وہاں اس نے قدرت کے توازن میں بگاڑ بھی پیدا کیا ہے اور اس بگاڑ کے نتیجے میں ہمیں آئے دن قدرتی آفات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان آفات سے بچنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ انسان قدرت کے ایکو سسٹم میں کسی قسم کی مداخلت کے بغیر اس سے مثبت طور پر مستفید ہوں۔
ہماری مسلح افواج نے اپنے ہم وطنوں کو مشکل سے نکالنے کے لئے اپنی تمام طاقت جھونک رکھی ہے، فوج کے ہزاروں جوان دن رات امدای کارروائیوں میں مصروف ہیں تاکہ لاکھوں متاثرہ افراد کو مشکل کی اس گھڑی میں آسانی مہیا کی جا سکے۔ ہر سیاسی جماعت، مذہبی تنظیم اور سماجی گروپ نے فوری طور پر سامان جمع کرنے کے لئے امدادی کیمپ نصب کرنے شروع کر دیئے۔ حکومت نے بھی اپنی سی کوشش شروع کر دی اور عالمی برادری کو صورتحال کی نشاندہی کی بلکہ اقوامِ متحدہ نے تو فنڈز جاری کرنے کا وعدہ بھی کر لیا ہے۔اس حوالے سے ریڈیو پاکستان فیصل آباد سٹیشن نے بھی یہاں مہم شروع کر رکھی ہے چونکہ ریڈیو کافی سنا جاتا ہے اس لئے روز ریڈیو پاکستان فیصل آباد کے مختلف پروگرامز میں مشکل گھڑی کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کر کے ان سے مدد کرنے کی درخواست کی جا رہی ہے۔ ریڈیو کے سامعین پوری دنیا میں پائے جاتے ہیں اس لئے ہر طرف سے اچھا رسپانس مل رہا ہے۔ شہر کی مختلف سلیبرٹیز کو بلا کر ان سے رائے لی جا رہی ہے، اس سے لوگوں کے جوش خروش میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ یہ ریڈیو فیصل آباد کی ایک ا چھی کاوش ہے اسی طرح دوسرے اداروں کو بھی اپنی اپنی سطح پر کوششیں کرنی چاہئیں تا کہ ایک ایسے وقت میں جب اہلِ وطن مشکلات و مصائب کا شکار ہیں کم از کم اس سے ان کا حوصلہ تو بڑھتا ہی ہے۔ میں خود ریڈیو پاکستان کے قومی نشریاتی رابطے پر چلنے والے ایک لائیو پروگرام میں بطور مہمان شریک تھا ایک مزدور کی کال آئی کہ اس نے بھی اپنی کل حاصل ہونے والی مزدوری میں سے کچھ حصہ سیلاب زدگان کی مدد کے لئے ریڈیو کے امدادی کیمپ میں جمع کرانا ہے۔ اس کا جذبہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا۔ ان جذبوں کو دیکھ کر سیلاب زدگان یہ تو یقیناً محسوس کریں گے کہ وہ اس قیامت کی گھڑی میں اکیلے نہیں ہیں۔ قوم ان کے ساتھ کھڑی ہے اور ان کی ہر ضرورت پوری کرنے میں پیش پیش ہے۔
ماہرینِ ماحولیات کا کہنا ہے کہ اگلے پچاس ساٹھ برس تک پاکستان میں ہر سال زبردست سیلاب آئیں گے وجہ یہ ہے کہ ہمالیہ کے گلیشئیر موسم گرما میں تیزی سے پگھلنے لگے ہیں۔ پھر موسم برسات میں بارشیں ہوں تو دریاؤں میں طغیانی آ جاتی ہے یوں دریا پھیل کر ہولناک جانی و مالی نقصان کا سبب بنتے ہیں جیسا کہ حالیہ سیلاب کے دوران ہوا اس صورتحال میں وقت کا تقاضا ہے کہ پہاڑی علاقوں میں موزوں مقامات پر زیادہ سے زیادہ چھوٹے ڈیم تعمیر کئے جائیں یہ ڈیم نہ صرف انسانوں، فصلوں اور عمارتوں کو سیلابی ریلے سے محفوظ رکھیں گے بلکہ ان میں محفوظ پانی آگے چل کر بجلی بنانے اور کھیت سیراب کرنے کے کام بھی آئے گا۔ بھارت نے پچھلے 75 سال میں چار ہزار سے زائد ڈیم بنا لئے ہیں تا کہ ان میں پانی ذخیرہ ہو سکے۔ مزید ڈیموں پر بھی کام جاری ہے اس کے باوجود پانی ذخیرہ کرنے کی بھارتی صلاحیت ابھی 220ارب کیوبک میٹر ہے جب کہ چائنہ نے 600ارب کیوبک میٹر کی صلاحیت پا لی ہے۔ بھارت اسی لئے مزید ڈیم تعمیر کر رہا ہے تا کہ 2020ء 420ارب کیوبک میٹر پانی ذخیرہ کر سکے۔ دوسری طرف پاکستان صرف 100ارب کیوبک میٹر پانی جمع کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاسی و ذاتی مفادات کے لحاظ سے بٹ چکے ہیں اور مخصوص گروہ نہیں چاہتے کہ کہ ان کے ہاں بننے والا ڈیم یا ذخیرہ آب کسی دوسرے صوبے میں آباد لوگوں کو فائدہ پہنچائے۔