وطن عزیز پاکستان کو اس وقت طوفانی بارشوں اور دریاوں ، ندیوں، نالوں اور رودکوھوں میں بہہ کر آنے والے پانی کے بھاری اور طوفانی ریلوں کی وجہ سے جس اونچے درجے کی سیلابی صورت حال کا سامنا ہے اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ علاقوں میں تباہی ، بربادی اور ٹوٹ پھوٹ کے ایسے ہولناک مناظر بکھرے ہوئے ہیں کہ ان کو دیکھ کر بے ساختہ دل خون کے آنسو بہاتا ہے۔حالیہ سیلاب اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں بلوچستان کا تقریبا تین چوتھائی حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ یہی حال سندھ کے تقریباً ایک تہائی حصے جنوبی پنجاب کے راجن پور ، لیاقت پور اور فاضل پور جیسے شہروں اور نواح کے دیہات و قصبات اور خیبر پختون خوا میں سوات ، مٹہ ،کالام ، بحرین ، مدین اور ان کے علاوہ لوئر دیر ، چارسدہ ، نوشہرہ اور ڈیرہ اسماعیل خان کے نواحی دیہات اور کچے کے علاقوں کی آبادیوں اور گلگت بلتستان کے بعض علاقوں کا ہے۔ پانی جو اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ بستیوں کی بستیوں کے صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے ساتھ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں ۔ ان کے گھر ،گھروندے، گھریلو سازو سامان ، خوراک کے ذخائر ، مال مویشی اور ڈھور ڈنگر سیلاب اور بھاری طوفانی ریلوں کی نذر ہو چکے ہیں۔ ایک ہزار سے زائد افراد کی زندگی کی شمعیںبجھ چکی ہیں ۔ بے گھر ہونے والے اور سیلاب سے بری طرح متاثرہ لوگ اونچی جگہوں اور سڑکوں پر پناہ کے لیے مجبور ہی نہیں ہیں بلکہ امدادی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے خوراک کی ضروری اشیاءاور دیگر سازو سامان کے انتظار میں شب و روز بسر کر رہے ہیں۔وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنی بساط کے مطابق ضروری امدادی کارروائیوں میں مصروف ہیں یا خانہ پُری کر رہی ہیں تو الخدمت فاﺅنڈیشن، سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ اور اخوت جیسے رفاعی اور فلاحی ادارے (اگر کچھ اداروں کے نام نہیں لیے جار ہے ہیں تو اس کے لیے معذرت خواہ ہوں) متاثرین کی دن رات مدد کرنے اور ان کی بحالی کے لیے مصروف ہیں۔ مسلح افواج کا کردار بھی حسب سابق اور حسب روایت بڑا نمایاں اور ممتاز ہے۔ فوجی جوان مشکل سے مشکل مقامات پر ریسکیو آپریشن کرنے اور متاثرین کو محفوظ مقامات تک پہنچانے اور خوراک اور دیگر ضروری اشیاءبہم پہنچانے میں سرگرمی سے مصروف عمل ہیں۔ تاہم ہماری سیاسی جماعتوں اور بعض سیاسی راہنماﺅں کا اس انتہائی مشکل اور آزمائش کے وقت میں کردار محل نظر ہے۔ خاص طور پر تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان اور ان کے ساتھیوں کی طرف سے جس طرح کے منفی رویوں کا اظہار اور سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے بیانات آئے ہیں ان کی تائید نہیں کی جاسکتی ۔ خیر اس پر کسی اگلے کالم میں بات ہوگی ۔ فی الحال ہم سیلاب کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں ہونے والے بے پناہ نقصانات ، توڑ پھوڑ اور سامنے آنے والے مصائب اور مشکلات کے ذکر تک اپنے آپ کو محدود رکھتے ہیں۔مصائب اور مشکلات کا ذکر بڑی حد تک ہوچکا ہے ۔ یہاں تھوڑا سا تذکرہ ماضی کے کچھ سیلابوں اور موجودہ سیلاب جو ارضی و سماوی
آفت کی حیثیت رکھتا ہے کے اس پہلو کا کہ اس میں ہماری کوتاہیوں ، غلطیوں ، بد انتظامی ، ناقص منصوبہ بندی اور بروقت ضروری اقدامات یا فیصلے نہ کر سکنے کا کتنا عمل دخل ہے اور وسیع اثرات کے حامل اس سیلاب اور طوفانی بارشوں کو کس حد تک ہم عذاب الٰہی یا مشیت ایزدی سمجھ سکتے ہیں۔
ماضی کے سیلابوں کا ذکر کرتے ہوئے میں یہاں دو بڑے سیلابوں کا حوالہ دونگا۔ پہلا حوالہ 2010کے اسی موسم کے سیلاب کا جس کی یادیں ابھی تک بہت سارے لوگوں کے ذہنوں میں موجود ہونگی۔2010کے سیلاب میں بلاشبہ بڑی تباہی اور بربادی ہوئی ، درجنوں انسانی جانوں کا زیاں ہوا۔ کھڑی فصلوں، سڑکوں ، پلوں ، شاہراہوں اور دوسرے انفراسٹرکچر کا بھی بڑا نقصان ہوا تاہم 2010کے سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقے موجودہ سیلاب سے متاثر ہونے والے علاقوں ، بستیوںیا شہروں کے مقابلے میں کم تعداد میں تھے۔ اس سیلاب سے خیبر پختون خوا کے نوشہرہ اور اس پاس کے علاقوں اور جنوبی پنجاب کے لیہ ،بھکر ، ڈیرہ غازی خان ، راجن پور اور دیگر شہروں اور قصبات اور سندھ میں دریائے سندھ کے کچے کے علاقے کی بستیوں میں بڑی تباہی اور بربادی ہوئی تھی ۔ انسانی جانوں کے زیاں سمیت کئی بستیاں سیلابی پانی سے نیست و نابود ہوئیں تو سڑکوں ، شاہراﺅں ، پلوں اور انفراسٹرکچر کے بھی بے پناہ نقصانات ہوئے۔ اس وقت پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور میاں شہباز شریف پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔ مرکز میں پیپلز پارٹی برسر اقتدار تھی اور سید یوسف رضا گیلانی وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز تھے۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ اسوقت کی وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں بالخصوص صوبائی حکومت نے سیلاب کی تباہ کاریوں سے نمٹنے کے لیے بروقت ضروری اقدامات کرنے ،متاثرین تک ضروری سازوسامان پہنچانے اور امدادی رقوم کی تقسیم میں بڑی فعالیت اور سرگرمی کا مظاہرہ کیا۔ خاص طور پر وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی اس وقت کی بھاگ دوڑ قابل تحسین سمجھی جا سکتی ہے۔ تاہم اس تباہ کن سیلاب کے اس پہلو کو ہم نے نظر انداز کرنے میں بھی کوئی کسر اٹھا نہ رکھی کہ آئندہ اس طرح کی کسی ارضی اور سماوی آفت سے بچنے کے لیے کیا ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ ہم نے حکومتی سطح سمیت عوامی سطح پر بھی انتہائی غیر ذمہ داری اور بحیثیت مجموعی بے حسی اور بے نیازی کا مظاہرہ کیا ۔ دریاﺅں اور پانی کی دیگر گزرگاہوں کے کناروں پر اور راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے میں ہم نے کوئی کسر اٹھا نہ رکھی۔ ہم نے پانی کی گزر گاہوں کو تنگ سے تنگ کر دیا تو پانی ذخیرہ کرنے کے لیے کوئی ڈیمز ، بیراج یا Reserviors بنانے پر کوئی توجہ نہ دی۔ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے جس کا نتیجہ موجودہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی صورت میں سامنے آچکا ہے۔
یہاں میں جس دوسرے سیلاب کا حوالہ دے رہا ہوں وہ 1972یا 1973کی آج کی طرح کی گرمیوں کا سیلاب تھا۔ دریائے چناب میں اونچے درجے کے سیلاب کے ساتھ دریائے جہلم اور دریائے راوی میں نسبتاً کم درجے کے سیلاب سے صوبہ پنجاب کے وسطی اور جنوبی علاقے اور صوبہ سندھ کے بالائی علاقے بری طرح متاثر ہوئے تھے۔ تاہم سیلاب کے ان دنوں میں بارشیں نہیں بر س رہی تھی ۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو ملک کے وزیر اعظم تھے اور ان کا کہنا تھا کہ وہ سیلاب کے پانی کے ساتھ ساتھ چلیں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا وہ ہر روز ہیلی کاپٹر پر سیلابی علاقوں کے دورے پر نکل جاتے اور متاثرین سے خطاب کرکے ان کا حوصلہ بڑھاتے یہاں تک کہ اونچے درجے کا سیلابی ریلہ جنوبی پنجاب میں دریائے سندھ میں شامل ہو کر سندھ کے بالائی علاقوں میں پہنچ گیا۔ وہاں سیلاب کی شدت میں کمی آگئی تو وزیر اعظم سمیت پوری قوم نے سکھ چین کا سانس لیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس سیلاب کے زمانے میں بھی پوری قوم نے امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور جگہ جگہ امدادی کیمپ لگا رکھے تھے۔ اسی طرح کا ایک امدادی کیمپ سر سید کالج مال روڈ پر بھی قائم کیا گیاجہاں میں اس وقت پڑھاتا تھا۔ مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے موجودہ سینٹرمحترم عرفان صدیقی بھی سرسید کالج کے اساتذہ میں شامل تھے وہ امدادی کیمپ کے انچارج تھے ۔ سرسید کالج کے سٹاف ، سٹوڈنٹس اور ان کے والدین نے سیلاب زدگان کی امداد کے لیے نقد عطیات کے ساتھ دیگر سازوسامان بھی جمع کرایا۔ گڑ، چنوں اور کھانے پینے کی دوسری اشیاءکے ہزاروں کی تعداد میں پیکٹ تیار کیے گئے ۔ محترم عرفان صدیقی اس سارے سازو سامان کو جو ایک ٹرک پر بمشکل سمایا تھا لیکر وسطی پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں گئے اور سیلاب زدگان میں اس سازو سامان کو تقسیم کیا۔
ماضی کے ان دو سیلابوں کا ذکر برسبیل تذکرہ کے طور پر آیا ہے ورنہ ہمارا اصل موضوع موجودہ سیلاب اور طوفانی بارشوں سے ہونے والے بے پناہ نقصانات اور ان کے ازالے کے لیے کی جانے والی امدادی سرگرمیوں سے متعلق ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ پوری قوم سیلاب زدگان کی امداد کے لیے سینہ سپر ہو چکی ہے جگہ جگہ امدادی کیمپ بنے ہوئے ہیں جن میں سیلاب سے متاثرہ لوگوں کے لیے مختلف طرح کی اشیاءاکھٹی کی جارہی ہیں۔ مسلح افواج نے بھی اس طرح کے اپنے کیمپ بنا رکھے ہیں تاہم ان تمام کیمپوں اور امدادی سرگرمیوں کو ایک مربوط نظام کے تحت لانا ہوگا تاکہ متاثرین کی یکساں طور پر مدد کی جا سکے۔ یہ امر بھی خوش آئند ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف خیبر پختون خوا اور پنجاب کی صوبائی حکومتوں کے معاندانہ رویوں کے باوجود ہر جگہ سیلاب سے متاثرہ افراد کی دلجوئی کے لیے پہنچ رہے ہیں۔ وفاق کی طرف سے انہوں نے صوبہ سندھ ، بلوچستان کے لیے بھاری امدادی رقوم کا اعلان ہی نہیں کر رکھا ہے بلکہ متاثرین میں جلد سے جلد امدادی رقوم کی تقسیم پر بھی زور دے رہے ہیں۔ عالمی برادری بالخصوص اقوام متحدہ کی طرف سے ملنے والا رسپانس بھی حوصلہ افزا ہے ۔ ترکی ، سعودی عرب ، متحدہ عرب امارات، قطر، بحرین اور چین کی طرف سے پاکستان کے لیے بھاری امدادی رقوم دینے اور سازو سامان بھیجنے کے اقدامات سامنے آچکے ہیں۔اللہ کرے گا کہ آزمائش کی اس گھڑی سے بھی ہم سرخرو ہوکر نکلیں گے لیکن ہمیں یہ پہلو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ارضی و سماوی آفات ہمارے برے اعمال کا نتیجہ اور ایک طرح کا عذاب الٰہی بھی ہوتی ہیں۔ اللہ کریم سے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں کی معافی مانگنے کے ساتھ نبی پاکﷺ کی التجائیں بھی ہمارا معمول ہونا چاہیے۔