دوحہ: افغان طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے کہا ہے کہ افغان طالبان مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں آواز بلند کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے طالبان کے ترجمان سہیل شاہین نے امریکا کے ساتھ ہونے والے دوحہ معاہدے کی شرائط کو یاد کرواتے ہوئے کہا کہ ان کی کسی بھی ملک کے خلاف مسلح آپریشن کرنے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔
سہیل شاہین نے کہا کہ مسلمان ہونے کے ناطے یہ ان کا حق ہے کہ کشمیر، بھارت اور کسی بھی دوسرے ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہم اپنی آواز بلند کریں گے اور یہ کہیں گے مسلمان آپ کے اپنے لوگ ہیں، آپ کے اپنے شہری ہیں۔ آپ کے قانون کے تحت وہ برابری کے حقوق کے مستحق ہیں اور بھارت پر دنیا کی نظریں مرکوز ہیں۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ بھارت میں 2014ء سے وزیر اعظم نریندرا مودی کے دور حکومت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ تاہم بی جے پی اور اس کی اتحادی جماعتیں اس الزام کی تردید کرتی ہیں۔ تین پڑوسی ممالک سے غیر قانونی طور پر آئے ہوئے غیر مسلم پناہ گزینوں کو شہریت دینے کے متنازع قانون کو بھی مسلمانوں کو ہدف بنانے کے طور پر دیکھا گیا ہے۔
بی بی سی کے مطابق بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے اور اس فیصلے کے اطلاق کے طریقہ کار پر کئی شہریوں کو غصہ ہے۔
1999ء میں اغواء ہونے والے جہاز کے الزام پر جواب دیتے ہوئے سہیل شاہین نے دعویٰ کیا کہ طالبان نے طیارے کے اغوا میں کوئی کردار ادا نہیں کیا اور اس حوالے جو مدد فراہم کی اس پر بھارتی حکومت کو شکرگزار ہونا چائیے۔ بھارت نے ہمیں درخواست کی کہ طیارے میں فیول کم رہ گیا ہے اور اس کے بعد پھر ہم نے محصور مسافروں کی رہائی کے لیے مدد فراہم کی۔
سہیل شاہین نے طالبان مخالف پروپیگنڈے کا الزام بھارتی میڈیا پر عائد کیا ہے۔ سہیل شاہین نے حقانی نیٹ ورک سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ حقانیوں کے خلاف پروپیگنڈہ محض دعوؤں پر مبنی ہے۔ حقانی کوئی گروپ نہیں ہے۔ وہ افغانستان کی اسلامی امارت کا حصہ ہیں۔ وہ اسلامی امارت افغانستان ہیں۔