نیو یارک: امریکا اور اقوام متحدہ میں پاکستان کی سابقہ سفیر ملیحہ لودھی نے کہا پاکستان نے 20 سال قبل ہی دنیا کو یہ باور کروا دیا تھا کہ افغانستان میں جنگ کوئی حل نہیں ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں ملیحہ لودھی نے طالبان کے کابل پر قبضے کے بعد افغانستان کی موجودہ صورتحال اور طالبان سے متعلق گفتگو کی اور دنیا بھر میں طالبان کو پاکستانی پراڈکٹ سمجھے جانے سے متعلق سوال پر ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس سوال کو مکمل پیرائے میں دیکھنا ہو گا،جیسا کہ ہم سب نے دیکھا کہ 20 سال کی طویل ترین جنگ کے بعد دنیا کی مضبوط ترین امریکی فوج نے افغانستان سے انخلا کیا، امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا تھا کہ کیوں کہ اب کوئی فوجی حل باقی نہیں بچا تھا اور وہ بالکل ٹھیک کہہ رہے تھے کیونکہ یہی بات پاکستان نے اس وقت کی تھی جب امریکا اور افغانستان کے درمیان یہ جنگ شروع ہوئی تھی۔
امریکا اور افغانستان کی طویل ترین جنگ میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے طالبان کے ساتھ پوری دنیا کے سامنے مذاکرات کیے اگر پاکستان یہ نہ کرتا تو امریکا اور طالبان کے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے تاریخی معاہدے میں تعمیری کردار میں پیش رفت نہ ہو پاتی۔
ایک سوال کے جواب میں ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں امن اور استحکام کے لیے اہم کردار ادا کیا اور عالمی برادری کو بھی ماضی کو لے ک پریشان نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس بات پر توجہ مرکوز کرنی چاہیے کہ مستقبل میں افغانستان میں امن و استحکام کے لیے کیا کردار ادا کر سکتی ہے۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان گزشتہ 4 دہائیوں سے افغانستان میں ہونے والی جنگ او امریکی عسکری قیادت کی مداخلت سے متاثر ہوا ہے اگر آپ نے اس دنیا کے بیشتر ممالک کی طرح اس دوران پاکستان اور افغانستان کا سفر کیا ہے تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ ہمیں لاکھوں مہاجرین، سکیورٹی مسائل اور منشیات جیسے چیلنجز کا سامنا ہے جو کہ ان ہی مداخلتوں کے باعث سامنے آئے ہیں۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ پاکستان مستقبل میں بھی افغانستان میں تشکیل دی جانے والی نئی حکومت کا عالمی برادری کے ساتھ اتحاد دیکھنا چاہتا ہے۔ دوسری جانب طالبان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے جبکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ طالبان کو بھی یقین دہانی کروائی جائے تاکہ صورتحال جنگ کی طرف نہ جائے۔
ملیحہ لودھی کا کہنا تھا کہ مذاکرات کے ذریعے راستے ہموار ہوتے ہیں اور پاکستان نے مذاکرات ہی کیے جس کی بدولت غیر ملکی فوجیوں سمیت ہزاروں افراد کا افغانستان سے انخلا ممکن ہوا۔ بین الاقوامی برادری کو طالبان سے کاؤنٹر ٹیررازم پر بات کرنی چاہیے کہ ان کی سرزمین کسی کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، طالبان پر زور دینا چاہیے کہ وہ ایک ایسی حکومت تشکیل دیں جس میں افغانستان میں موجود تمام طبقات کی نمائندگی ہو، اگر ایسا نہ ہوا تو افغانستان کے ایک اور خانہ جنگی کی طرف جانے کا خطرہ ہر وقت منڈلاتا رہے گا۔
امریکا میں سابق پاکستانی سفیر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی برادری کی طرح پاکستان کو بھی خواتین اور انسانی حقوق کے احترام کے حوالے سے تحفظات ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ طالبان نے جو وعدے کیے ہیں ان پر عمل درآمد کریں اور طالبان بھی اپنے گزشتہ دور کے طرز عمل کو دہرانا نہیں چاہتے، اس کی کوئی گارنٹی بھی نہیں ہے لیکن ہمیں امید ہے کہ وہ دوبارہ ماضی کو نہیں دہرائیں گے، بین الاقوامی برادری کو بھی طالبان کے ساتھ مفاہمت کی طرف جانا چاہیے کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر طالبان کو اپنے وعدوں سے مکرنے کا ایک موقع مل جائے گا۔