مزاحمت سے مفاہمت اور قومی حکومت……

مزاحمت سے مفاہمت اور قومی حکومت……

مسلم لیگ ن کی اندرونی سیاست میں بیانیے کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف نواز شریف کا مزاحمتی بیانیہ ہے تو دوسری طرف شہباز شریف کا مفاہمتی بیانیہ۔ اس بیانیے کی لڑائی میں تو ایک وقت وہ آ گیا جب شہباز شریف نے اہم پارٹی معاملات سے نظر انداز کرنے پر پارٹی صدارت سے ہی مستعفی ہونے کاعندیہ دے دیا۔ جسے بعد میں نواز شریف نے نہ صرف سنبھالا بلکہ شہباز شریف کے مفاہمتی بیانیے کے سامنے بھی ہتھیار ڈال دیے اور تمام سیاسی معاملات کی باگ ڈور  ان کے ہاتھ میں دے دی۔ یہی وجہ ہے کہ مریم نواز اور شاہد خاقان عباسی وغیرہ آج کل چپ کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف کے لیے نرم گوشہ رکھتی ہے اور آج کل وہ اپنے مفاہمتی بیانیے کی بدولت اسٹیبلشمنٹ میں اپنی پارٹی کی قبولیت کے لیے رستے تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ میں انہی کالموں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ شہباز شریف دھرنوں، احتجاج اور مار دھاڑ کی سیاست کے خلاف ہیں اور ان کا یقین آئین میں تعین کردہ رستوں پر ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست کو ترجیح دیتے ہیں۔ وہ نواز شریف کے بیانیے کے برعکس اداروں بشمول عدلیہ اور فوج سے ٹکراؤ کے خلاف ہیں۔
کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے کے اگلے دن ہی مسلم لیگ ن کے صدر اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے مزاحمت سے مفاہمت اور پھر قومی حکومت کی تجویز نے پی ڈی ایم اور نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے کی نفی کر دی۔ گو کہ انہوں نے اپنے بیان میں شفاف انتخابات کا ذکر بھی کیا ہے لیکن ان کے قومی حکومت کے بیان نے جہاں سیاستدانوں کو حیران کر دیا وہیں ان کے اپوزیشن اتحاد اور ان کی جماعت مسلم لیگ ن میں بھی کھلبلی مچا دی۔ پارٹی کے اندر ان کے مخالف دھڑے نے ان کے خلاف آسمان سر پر اٹھا لیا۔ مسلم لیگ ن میں ان کے حامی کہتے ہیں کہ یہ ان کے مفاہمتی 
بیانیہ کی کوششوں کی کڑی ہے اور پاکستان کو درپیش مسائل کے پیش نظر انہوں نے آئندہ انتخابات کے بعد تمام جماعتوں پر مشتمل قومی حکومت کی تجویز دی ہے۔ سوال یہ کہ قومی حکومت کی اس تجویز کو نواز شریف کی تائید حاصل ہے؟ لندن سے ذرائع اس کی نفی کرتے ہیں۔ جبکہ مسلم لیگ ن کے اندر نواز شریف گروپ کسی بھی قومی حکومت کی تجویز کو یکسر رد کرتے ہوئے اسے ناقابل عمل قرار دیتے ہوئے مسلم لیگ ن کی سیاسی اساس کے خلاف قرار دے دیا۔ ان کا دعویٰ تھا کہ نواز شریف نے بھی قومی حکومت کی تجویز کو رد کر دیا ہے لیکن اس دعوے کی تصدیق ابھی باقی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نواز شریف کی آشیرباد کے بغیر یہ کیسے ممکن ہے کہ شہباز شریف اتنی بڑی تجویز دے سکیں۔
سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ شہباز شریف کے مفاہمت اور قومی حکومت کے بیانیے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں آئندہ کا سیاسی نقشہ نظر آ گیا ہے جس میں انہیں مسلم لیگ نواز کی پوزیشن مستحکم نظر نہیں آتی اور اسٹیبلشمنٹ کی نظروں میں شرف قبولیت کے لیے انہوں نے یہ شوشہ چھوڑا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دیگر سیاسی پارٹیوں کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کو بھی یہ تجویز قبول ہو گی؟ شہباز شریف نے شفاف انتخابات کی بھی بات کی ہے لیکن شفاف انتخاب کا جو خاکہ اپوزیشن یا شہباز شریف کے ذہن میں ہے اس کا رستہ بھی پارلیمنٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ لیکن نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان تو پارلیمنٹ کو ماننے کو تیار ہی نہیں اور کسی قسم کے احتجاج سے تو شفاف انتخابات کا رستہ نہیں نکلے گا۔ بہتر ہے کہ شفاف انتخابات کے لیے انتخابی اصلاحات، الیکٹرانک ووٹنگ مشین یا کسی بھی قانون سازی کے لیے پارلیمنٹ کا راستہ اپنایا جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز شریف کا قومی حکومت کا پیغام اسٹیبلشمنٹ تک پہنچ گیا ہے لیکن دونوں کے درمیان اعتماد کے فقدان کی وجہ سے یہ بیل منڈھے چڑھتے نظر نہیں آتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلم لیگ ن میں فیصلے کی قوت اب بھی اسٹیبلشمنٹ کے سب سے بڑے مخالف نواز شریف کے پاس ہے اور انہی عوامل کے پیش نظر ان دونوں کے درمیان بات بنتی نظر نہیں آتی۔ دوسری طرف مولانا فضل الرحمان بھی شہباز شریف کی مفاہمت اور قومی حکومت کہ تجویز پر سیخ پا ہیں۔ کیونکہ انہوں نے اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے خلاف جو عمارت کھڑی کی تھی شہباز شریف نے اس کی بنیادیں ہلا دی ہیں۔ جے یو آئی کے ذرائع بتاتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے کراچی جلسے کے اگلے دن ہی شہباز شریف کی قلابازی نے اپوزیشن کے بیانیے کو دھچکا پہنچایا ہے۔ ادھر مریم نواز نے اسلام آباد میں عدالت پیشی کے موقع پر اپنے چچا اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کے قومی حکومت بنانے کے بیان کو ماننے سے ہی انکار کرتے ہوئے کہا کہ مفاہمت تو دور حکومت سے بات بھی نہیں کی جانی چاہیے۔
شہباز شریف کی پریس کانفرنس تمام نیوز چینلز نے دکھائی جس میں انہوں نے واضح طور پر قومی حکومت کی بات ہے۔ مریم نواز کے بیان سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن میں بیانیے کی لڑائی جاری ہے۔ ادھر شہباز شریف نے الیکشن کمیشن کے اراکین کے تقرر اور الیکٹرانک ووٹرز مشین کے معاملے پر غور کے لیے مسلم لیگ کی سینئر قیادت پر مشتمل کمیٹی بنا دی ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان الیکٹرانک ووٹنگ مشین کو رد کر چکے ہیں۔
پی ڈی ایم کی تقسیم سے عجب تماشا کھڑا ہو گیا ہے اپوزیشن ہی اپوزیشن کی اپوزیشن کر رہی ہے۔ حکومت کے بجائے پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو نے اپنی توپوں کا رخ مسلم لیگ ن اور جے یوآئی کی قیادت کی طرف کر دیا ہے۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے لیکن پی ڈی ایم کی تقسیم انا کی بنیاد پر مسلم لیگ ن اور جے یو آئی کے ہاتھوں ہوئی جس کا مداوا ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس کا فائدہ لا محالہ حکومت کو ہی ہو گا اور اس سلسلے میں شہباز شریف کی کوششیں بھی کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں۔
قارئین اپنی رائے 03004741474 پر وٹس ایپ، سگنل، بی آئی پی یا ٹیلیگرام کر سکتے ہیں۔