کچھ شاعری تجریدی آرٹ کی طرح ہوتی ہے جس طرح مصور کی بنائی ہوئی تصویر یا منظر پر کوئی اپنی اپنی سوچ کے مطابق مفہوم نکالتا ہے شاعری کے ساتھ بھی وہی معاملہ ہے پنجابی کے مشہور شاعر استاد امن (1911-1984) کی شاعری بھی ایسی ہی ہے۔ لاہور پر لکھی گئی اپنی مشہور پنجابی نظم میں انہوں نے ایک منفرد انداز میں یوں لکھا ہے کہ پہلے وہ سوال کرتے ہیں پھر خود ہی اس کا جواب دیتے ہیں یہاں اس نظم کا صرف پہلا شعر محل نظر ہے جس میں وہ پوچھتے ہیں۔
دال دس خاں شہر لہور اندر
کِنے بُوہے تے کِنیاں باریاں نیں
آگے چل کر وہ خود ہی جواب دیتے ہیں
تینوں دساں میں شہر لہور اندر
لکھاں بوہے تے لکھاں ای باریاں نیں
عشق و محبت اور رومانویت سے سرشار اس نظم کا یہ شعر ان کی ادبی قدروقیمت سے الگ تھلگ اپنا ایک منفرد مفہوم رکھتا ہے اگر اس کو پاکستان کی 75 سالہ تاریخ کی اقتصادی، سیاسی اور سماجی حالت زار سے جوڑا جائے تو دامن کے بوہے اور باریاں یعنی دروازے اور کھڑکیاں دراصل کرپشن بدعنوانی رشوت ستانی اور لوٹ کھسوٹ کی نشاندہی کرتے ہیں جس کے بعد مذکورہ شعر کی مزید تشریح کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں رہتی۔ کرپشن اور لاقانونیت ہمارے جسم کی رگ رگ میں خون بن کے دوڑ رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ تقسیم ہند سے دلبرداشتہ استاد دامن نے آزادی کے چند سال بعد دہلی میں ایک مشاعرے میں جس میں وزیراعظم جواہر لعل نہرو مہمان خصوصی تھے انہیں مخاطب کر کے کہا تھا کہ
لالی اکھیاں دی پئی دَسدی اے
روئے تسی وی او روئے اسیں وی آں
یہ رونا آزادی کا رونا نہیں بلکہ ناقص طرز حکمرانی کا رونا تھا جو سرحد کے دونوں طرف چارسو نظر آتا تھا۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو سب سے زیادہ فخر خیبرپختونخوا میں بہنے والی دودھ اور شہر کی ان نہروں کا ہے جو صرف حکومتی پارٹی کو نظر آتی ہیں عام آدمی کی زندگی صوبے بھر کی ٹوٹی ہوئی سڑکوں پر خاک چھانتے گزر رہی ہے لیکن اس میں بھی ہم حکومت کو وسائل اور فنڈز کی قلت کی وجہ سے شک کا فائدہ دے کر باعزت بری کر دیتے ہیں یہاں تو معاملات اس سے زیادہ خراب ہیں فنڈز کی قلت کے پس پردہ اسباب کیا ہیں۔
میرے پاس پشاور الیکٹرک سپلائی کارپوریشن PESCO کے بنوں سرکل کے سپرنٹنڈنٹ انجینئر کا ایک ادارہ جاتی میمو ہے جو کسی میموگیٹ سے کم نہیں جس میں اس نے اپنے اعلیٰ حکام کو بتایا کہ اسے رات 8 بجے حکومت سے تعلق رکھنے والے اہم رہنما کی وٹس ایپ کال آئی جو ڈی آئی خان میں بجلی چوروں کے خلاف آپریشن کرنے پر بہت زیادہ ناراض اور مشتعل تھے۔ انہیں اعتراض تھا کہ ان کے حلقے میں ڈیفالٹرز کے کنکشن کیوں منقطع کئے گئے ہیں۔ سپرنٹنڈنٹ انجینئر کا کہنا ہے کہ انہوں نے غصے میں ہمیں گالیاں دیں اور غلیظ زبان استعمال کی اور کاٹے گئے کنکشن کی بجلی چالو کرنے کا حکم دیا۔ ایس ای صاحب کے بقول انہوں نے قائل کرنے کی آخری حد تک کوشش کی مگر وہ قائل نہ ہوئے اور غیر مہذب الفاظ کا استعمال جاری رکھا مگر ایس ای نے بجلی بحال کرنے سے معذوری پیش کر دی۔ اس طرح کا ناروا سلوک ایکسین کے ساتھ بھی کیا گیا اور واپڈا کی پوری مینجمنٹ اوپر سے لے کر نیچے تک سب کے بارے میں انتہائی نازیبا کلمات کہے گئے مگر افسران نے محکمہ کے وسیع تر مفاد کی خاطر یہ بے عزتی برداشت کر لی۔
بجلی کی ڈسٹری بیوشن کمپنیاں کس ہوشیاری سے بجلی چوری کو لائن لاسز کا نام دے دیتی ہیں تاکہ لوگوں کو پتہ ہی نہ چلے دوسرے مرحلے میں لائن لاسز کی ساری رقم بل ادا کرنے والوں پر تقسیم کر دی جاتی ہے گویا ایک ظلم اور کفر کا نظام ہے کہ جو بل نہیں دیتا اس کا بل اس کے پڑوسی سے وصول کر لیں تاکہ محکمے کا خسارہ پورا ہو جائے۔ اپنے دور میں بجلی کے بل جلانے والی موجودہ حکومت کے پہلے سال 53 ارب روپے کی بجلی چوری ہوئی، دوسرے سال 42 ارب جبکہ تیسرے سال کا بجلی چوری کا گراف اپنی بلند ترین سطح پر یعنی 54 ارب روپے تک جا چکا ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی 74 ارب روپے کی ادائیگیاں التوا کا شکار ہیں جس کا ایک بڑا حصہ طبقہ اشرافیہ نے دبا رکھا ہے۔
یہ دلچسپ امر ہے کہ بجلی چوری میں چھوٹے طبقے سے لے کر وزراء تک اور دکاندار سے لے کر انڈسٹری مالکان تک سب نے اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے ہیں۔ حکومت، آئی پی پی ڈسکوز میں سے کسی کے پاس بھی بجلی چوری کا کوئی حل نہیں ہے۔ ن لیگ حکومت کے دوران جب گردشی قرضہ 500 ارب روپے سے اوپر جاتا تھا تو میڈیا میں شور مچ جاتا تھا کہ حکومت کہاں ہے اس وقت گردشی قرضہ 2300 ارب روپے ہے حالانکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت تین گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ پیسہ کہاں جا رہا ہے۔ وزیرخزانہ شوکت ترین صاحب کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے وزرائے خزانہ کے ذمہ دار نہیں ہیں ان کا کہنا ہے کہ پاور سیکٹر کی بحالی یعنی بجلی کے نظام کی خرابیاں ختم کرنے کے لئے 5 سے 7 سال کا عرصہ درکار ہے گویا اس حکومت کو ایک اور چانس دیں تاکہ یہ مزید 5 سال تک آپ کی بہتر خدمت کر سکے۔ اس وقت حکومت ڈسٹری بیوشن اور ٹرانسمشن میں 17 فیصد بجلی ضائع ہونے کا خود اعتراف کرتی ہے اصل معاملہ اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔
اب حکومت نئی قانون سازی کرنے جا رہی ہے کہ کس طرح بجلی چوری کو روکا جائے جس میں تجویز یہ ہے کہ بجلی چوری پر ایف آئی آر کا اندراج گریڈ 17 کے افسر کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں ہو گا اس قانون کا مقصد پولیس کو رشوت ستانی سے روکنا ہے تاکہ اس کا ناجائز استعمال نہ ہو مگر ایسی کوئی قانون سازی زیرغور نہیں ہے جس کے تحت کسی سیاسی رہنما سے بجلی کا بل ریکور کیا جا سکے یا محکمہ کی طرف سے چوروں کے خلاف کارروائی میں سیاسی مداخلت بند کی جا سکے۔ ویسے کرپشن کی دوڑ میں بجلی کا محکمہ اس وقت پولیس ڈیپارٹمنٹ سے آگے ہے۔ آدھی سے زیادہ بجلی چوری محکمہ ملازمین کی ملی بھگت سے ہو رہی ہے۔