تہران : ایران کے انسانی حقوق گروپ نے دعویٰ کیا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے خلاف خواتین کی زیرِ قیادت جاری مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں کم از کم 92 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق 22 سالہ مہسا امینی کو اخلاقی پولیس نے غیر موزوں لباس کے باعث گرفتار کیا تھا۔ حراست کے دوران کومہ میں جانے کے بعد وہ 16 ستمبر کو انتقال کر گئی تھیں جس کے نتیجے میں ایران میں تقریباً تین برس کی بدامنی کی سب سے بڑی لہر سامنے آئی۔
اوسلو میں قائم ایران کی انسانی حقوق تنظیم (آئی ایچ آر) نے بتایا کہ ایران کے جنوب مشرقی علاقوں میں جمعے کو ہوئی جھڑپوں میں مزید 41 افراد ہلاک ہو گئے، مزید کہا گیا کہ خطے کے پولیس سربراہ پر بلوچ اقلیت کی لڑکی کے ریپ کے الزامات نے بھی مظاہروں کو ہوا دی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ احتجاج مسلسل 16 ویں رات بھی جاری رہا جبکہ مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان جھڑپوں نے شہروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ مظاہروں کا آغاز کرد اقلیت کے اس شہر سے ہوا تھا جہاں سے مہسا امینی کا تعلق تھا۔
اے ایف پی نے ایران کے اخبار کیہان کے حوالے سے بتایا کہ تہران میں اس اخبار کے دفتر پر حملہ ہوا جس کے ڈائریکٹر کی تقرری سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کی تھی۔
آئی ایچ آر کے ڈائریکٹر محمود امیری نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ ایرانی حکومت کے جرائم کی تحقیقات کرائے اور ایرانی مظاہرین کو قتل ہونے سے بچائیں۔
قبل ازیں لندن میں قائم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 53 ہلاکتوں کی تصدیق کردی تھی جبکہ ایران کی نیم سرکاری خبر ایجنسی 'فارس' نے گزشتہ ہفتے رپورٹ کیا تھا کہ تقریباً 60 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔
تہران نے ملک میں بدامنی پر قابو پانے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں اور بتایا گیا کہ صوبے سیستان بلوچستان کے دارالحکومت زاہدان میں جھڑپوں کے دوران پاسداران انقلاب کے 5 اہلکار جاں بحق ہوئے ہیں۔