دنیا میں جمہوری نظام کے دعویدار تقریباً ہر ملک میں سیاسی جماعتوں، دھڑوں اور ان کے رہنمائوں میں نقطہ ہائے نظر میں اختلافات اور ایک دوسرے کے مخالف موقف پر کاربند ہونا کوئی انہونی بات نہیں اور نہ ہی اسے معیوب سمجھا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں ، سیاسی دھڑے اور ان سے وابستہ راہنما اپنے اپنے موقف پر قائم رہ کر عوام کی اکثریت کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوششیں جاری رکھتے ہیں یہاں تک کہ ملک میں رائج انتخابی نظام کے تحت انتخابات میں اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کرکے اقتدار و اختیار کے مالک بن کرحکومتی ایوانوں میںپہنچ جاتے ہیں۔ جبکہ ان کے مخالفیں ان کو نیچا دکھانے اور انہیں اقتدار و اختیار سے محروم کرنے اور اپنے لیے اقتدار و اختیار کی راہیں ہموار کرنے کے لیے اپنی سی کوششیں جاری رکھتے ہیں۔ جمہوری ممالک میں اس سارے عمل یا ان سر گرمیوں کو کوئی معیوب یا قابل اعتراض نہیں گردانا جاتا کہ یہ سب کچھ ان ممالک کے آئین و قانون کی حدود کے اندر رہتے اور جمہوری روایات و اقدار کی پاسداری کرتے ہوئے ہی کیا جاتا ہے۔ بطور خاص اس بات کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے کہ کوئی ایسی بات نہ ہونے پائے یا ایسے موقف اور بیانیے کا اظہار سامنے نہ آنے پائے جس سے ریاست کی بنیادوں ، اس کے استحکام ، اس کی سلامتی اور بقا ، اس کی عزت وو قار ، اور اس کے مستقل ریاستی اداروں کو کوئی گزند پہنچے۔ یہ کوئی فرضی یا خیالی بات نہیں بلکہ آزاد جمہوری ملکوں میں ایک معمول کی بات ہے کہ وہاں سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں سے لیکر ہر شہری اور برسر اقتدار افراد یا جماعتوں سے لیکر ان کے مخالفیں اور اعلیٰ حکومتی اور ریاستی عہدیداروں سے لیکر نچلے درجے کے اہل کاروں اور عہدے داروں تک کا بھی یہ شیوہ ہے کہ وہ ریاست یا مملکت کے حوالے سے ان پہلووں کو بطور خاص اہمیت دیتے ہیں اور کوئی ایسی بات نہیں کرتے جس سے ملک میں تفریق ، انار کی ، افراتفری یا نہ ختم ہونے والی مخالفت کی فضا جنم لے سکے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ان جمہوری روایات و اقدار کی پاسدار ی اور باہمی رواداری کایہ اعجاز ہے کہ آزاد جمہوری ممالک میں اقتدار و اختیار کی منتقلی سے لیکر دیگر حکومتی اور ریاستی امور بہ طریق احسن سر انجام پا جاتے ہیں اور کسی کو ان پر حرف گیر ی کرنے کی نوبت نہیں آتی۔
یہ تمہید اپنی جگہ بجا ہے اسے نظر اندار نہیں کیا جا سکتا لیکن دیکھنا ہوگا کہ ہم جو پارلیمانی نظام حکومت ، جمہوری اقدار و روایات اور آئین و قانون پر عمل در آمد اور ان کی پاسداری کے دعویدار ہیں کیا ہمارے ہاں اس طرح کی رواداری ، باہمی برداشت ، تحمل اور یگانگت کی فضا ، جمہوری روایات کی پاسدار ی اور آئین و قانون پر عمل در آمد کا چلن موجود ہے یا نہیں ؟ سچی بات ہے اس کا جواب واضح طور پر نفی میں دیا جا سکتا ہے۔ حالیہ مہینوں بلکہ ہفتوں اور دنوں میں ہمارے ہاں جس طرح کی باہمی مخالفت ، افراتفری ، انارکی ، توڑ پھوڑ ، بد امنی ، عدم اطمینان اور الزام تراشی کی فضا کو پروان چڑھایا گیا ہے، جھوٹ و سچ کی تمیز کو ختم کیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ریاستی اداروں کو لگاتار تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے ان کو شکست و ریخت سے دو چار کرنے اور ان کی قیادت میں باہمی تفریق اور تقسیم پیدا کرنے کی جو دانستہ اور نادانستہ کوششیں کی گئی ہیں اور کی جارہی ہیں بلاشبہ افسوس ناک اور تکلیف دہ ہی نہیں ہیں بلکہ ماضی قریب اور بعید میں بھی ان کی کوئی مثال نہیں ملتی ۔
کیا یہ المیہ نہیں ہے کہ ہماری معاشرتی اور سماجی روایات و اقدار کوجن میں باہمی ادب و احترام ، چھوٹے بڑے اور سچ و جھوٹ میں تمیز ، تحمل و برداشت اور شر م و حیا کو بنیادی حیثیت حاصل ہے جہاں بازیچہ اطفال بنا یاجا رہا ہے وہاں ریاستی
اداروں کو اس طرح ہدف تنقید بنایا جاتا ہے جیسے ان کا تعلق ریاست پاکستان سے نہیں بلکہ کسی دشمن ملک سے ہے۔ یا ان کو نشانہ بنانے والے اس ملک کے باشندے نہیں ہیں بلکہ ان کا تعلق کسی دشمن ریاست سے ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ پچھلے چند ماہ کے دوران جب سے جناب عمران خان کی حکومت ختم ہوئی ہے یہ سب کچھ ہوتا ہی نہیں چلا آرہا بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس میں مزید شدت اور سختی آرہی ہے۔ آخر اس افراتفری ، اس انارکی ، نفرت ، ضد، انتقام کی فضا اور مستقل ریاستی اداروں سے تعلق رکھنے والے ذمہ دار افراد کو غداروں کی فہرست میں شامل کرنے اور انہیں میر جعفر اور میر صادق جیسے غداروں کے القاب سے پکارنے کا انجام کیا ہوگا۔کاش ہمارے قائدین بالخصوص کپتان جناب عمران خان کچھ وقت نکال کر اس بارے میں بھی سوچیں کہ وہ ملک و قوم کو کس طرف لیکر جا رہے ہیں ۔ یہ ملک صر ف ان کا یا ان کی پارٹی سے وابستہ افراد کا نہیں ہے بلکہ 22کروڑ عوام کا ہے اور عوام کی اکثریت بہرکیف اس طرح کی الزام تراشیوں ، ہرزہ سرائی اور لغوباتوں کی تائید نہیں کرتی ۔
وطن عزیز کے موجودہ مخدوش حالات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کا موازنہ گزرے ہوئے پانچ ، چھ عشروں کے اہم حالات و اقعات ، حکومت مخالف تحریکوں، سیاسی جماعتوں، اور سیاسی رہنمائوں میں آخری حدوں کو چھونے والے اختلافات اور ایک دوسرے کو ہدف تنقید بنانے کے معاملات سے کیا جا سکتاہے۔لیکن اس کی تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ سب تاریخ کا حصہ ہے تاہم اتنا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں اس طرح کی ضد ، ہٹ دھرمی ، جھوٹ ، الزام تراشی ، باہمی نفرت اور انتقامی جذبات کی فضا کو کبھی بھی پروان نہیں چڑھایا گیا اور نہ ہی ریاستی اداروں بالخصوص فوج جس کا کام ہی ملک کی سلامتی اور دفاع کے لیے جانوں کی قربانیاں دینا اور ملک سے وفاداری کو نبھانا ہے ، اس کی قیادت کو اس طرح غداروں کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔ بلاشبہ اس وقت ہم بحیثیت قوم انتہائی اذیت ، ذلت اور انارکی کاشکار ہی نہیں ہیں بلکہ ملک و قوم کو ایک ایسی تفریق اور باہمی مخالفت کے حصار میں دھکیل دیا گیا ہے جس سے آنے والے دنوں میں نکلنا ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہوگا۔
یہاں اس بات کا مختصراً جائزہ لیا جا سکتا ہے کہ ملک و قوم کو درپیش دگر گوں صورت حال کی بڑی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے ۔ یہ کہنا شاید غلط نہ ہو کہ اس صورت حال کی بڑی وجہ اپنے (اداروں کے) بوئے ہوئے کانٹے ہیں جن کو اب چننا پڑرہا ہے۔ کون اس حقیقت سے آگاہ نہیں کہ جناب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کا لگایا ہوا وہ پودا ہے جس کو انھوں نے خود پروان چڑھایا اور جب اس کی پشت پناہی سے ہاتھ کھینچ لیا گیا تو وہ ان کے گلے پڑنا شروع ہوگیا۔ جوں جوں اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹتی گئی ، جناب عمران خان اور ان کے ساتھی شیر ہوتے گئے۔ وہ عسکری قیادت کے لیے نیوٹرل ، جانور، میر جعفر ، میر صادق، غدار، گیڈر، بزدل، بیرونی آلہ کار اور سازشی جیسے سابقے ، لاحقے اور القابات استعمال کرنے لگے۔ اب انتہا یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ جناب عمران خان گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور میں خطاب کرنے کے لیے تشریف لے جاتے ہیں اور وہاں سٹوڈنٹس سے اس انداز میں مخاطب ہوتے ہیں کہ وہ بہ یک آواز عسکری قیادت (آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ) کو نشانہ تضحیک بنانے سے گزیر نہیں کرتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ جناب عمران خان کو اس بات کا سخت صدمہ ہے کہ ان کی حکومت ختم کیوں ہوئی وہ اس منفی اور جھوٹے پروپیگنڈے کا مسلسل پر چارک کر رہے ہیں کہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن میں سازش تیار ہوئی جس کے تحت اپوزیشن جماعتوں نے ان کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی ۔ عسکری قیادت نے جو ہمیشہ سے عمران خان کی پشت پناہی کرتی چلی آرہی تھی اس نے اس موقع پر غیر جانبدار (نیوٹرل) رہ کر تحریک عدم اعتماد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس طرح انہیں حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ جناب عمران خان کو اپنے حکومت کے جانے کا دکھ ، غم اور تکلیف ہے تو یہ فطری بات ہے لیکن اس دکھ اور تکلیف کو مٹانے کے لیے یا اس کا انتقام لینے کے لیے انہوں نے جو راہ اختیار کر رکھی ہے کیا وہ ایک ذمہ دار اور محب وطن سیاسی راہنما جو چار سال تک وزیر اعظم کے طور پر ملک کے سیاہ و سفید کا مالک رہا ہے ، اس کے لیے مناسب ، جائز اور درست سمجھی جا سکتی ہے ؟ یقینا ایسا نہیں ہے ۔ جناب عمران خان اپنی حکومت کو ختم کرنے کی جس امریکی سازش کا منفی پروپیگنڈہ کرتے چلے آرہے ہیں اس کی حقیقت بھی جناب عمران خان کی بطور وزیر اعظم اپنے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے ہونے والی گفتگو پر مشتمل آڈیو جو اگلے دن لیک Leak ہوئی ہے کی صور ت میں سامنے آچکی ہے۔ جناب عمران خان اپنے پرنسپل سیکرٹری سے یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم نے امریکہ میں پاکستانی سفیر کی طرف سے بھیجے گئے سائفر سے کھیلنا ہے ( بطور کھیل استعمال کرنا ہے)۔ اعظم خان وزیر اعظم کو گائیڈ کر رہے ہیں کہ کیسے سائفر کو اپنی مقصد براری کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے اور وہ اس کے حوالے سے وزیر خارجہ اور خارجہ سیکرٹری سے ہونے والی میٹنگ میں اپنی مرضی کے منٹس شامل کریں گے۔
جناب عمران خان نے بلاشبہ امریکی سازش کے بیانیے اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت کو ایمپورٹڈ حکومت کا نام دیکر اسے مطعون کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے ۔ اس کے ساتھ انھوں نے عسکری قیادت کو بھی آج تک بخشا نہیں ہے اور اس کے بارے میں ہر نامناسب ، ناروا، ہتک آمیز اور قابل نفریں الفاظ استعمال کرنے میں بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی ہے۔ جناب عمران خان کو جو ایک بڑی قومی سیاسی جماعت کے سربراہ اور قومی راہنما گردانے جاتے ہیں یہ سب کچھ زیب نہیں دیتا۔ اگر وہ اتنی بات سمجھ لیتے یا اب بھی سمجھ لیں کہ ملک کے آئین و قانون کے تحت قومی اسمبلی میں پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے نتیجے میں انہیں حکومت سے محروم ہونا پڑا۔ جو ایک آئینی اور قانونی عمل ہے تو پھر انہیں کسی طرح کے سازشی بیانیے کے اختیار کرنے یا منفی پروپیگنڈہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑ سکتی تھی لیکن جناب عمران خان کو کون اس بارے میں سمجھائے۔اب جب کہ نومبر میں نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں ہونے والے فیصلے کے حوالے سے بھی انہیں سخت تکلیف پہنچ رہی ہے کہ اس میں ان کا کوئی عمل دخل نہیں ہوسکتا تو وہ اور بھی غصے میں کھول رہے ہیں۔ نومبر سر پر آچکا ہے اور اس کی 28تاریخ سے قبل نئے آرمی چیف کی تقرری کا فیصلہ بہر کیف کیا جانا ہے ۔ آئین و قانون کے تحت اس فیصلے کا حتمی اختیار وزیر اعظم کے پاس ہے اور وزیر اعظم اس وقت میاں شہباز شریف ہیں اور اس طرح جناب
عمران خان کا اس فیصلے سے کچھ لینا دینا نہیں بنتا یقینا یہ ایسی حقیقت ہے جو عمران خان کو چین نہیں لینے دے رہی اور وہ آئے روز منہ میں جو کچھ آتا ہے کہے چلے جا رہے ہیں۔ تاہم قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور ہمیں اس حقیقت کو کبھی بھی بھلانا نہیں چاہیے کہ اس میں ہماری ضد، ہٹ دھرمی ، غرور ، تکبر ، انا پرستی اور انتقامی جذبات کا کچھ عمل دخل نہیں ہوسکتا۔