میں نے اپنے محترم بھائی،ملک کے نامور آرتھوپیڈک سرجن پروفیسر عامر عزیزکو اُن کے ساتھ اپنے تعلق کی زندگی میں صرف دوبارروتے دیکھا، ایک بارجب اُن کی والدہ کا انتقال ہوا، اور دوسری باردوروز قبل جب اُن کی بیگم،ہماری پیاری بھابی نوشین عزیز کورونا کا شکار ہوگئیں، ہر اچھے انسان کو اپنے والدین سے بے انتہا محبت ہوتی ہے، عامر عزیز نے مگر جیسی محبت، اور جتنی خدمت اپنے والدین خصوصاً اپنی والدہ کی، کی، سچ پوچھیں والدین کی خدمت کے طورطریقے میں نے اُن سے سیکھے۔ اُن کی والدہ بہت عظیم خاتون تھیں، اُن کی عظمت کا اصل رُوپ ہم نے اُس وقت دیکھا جب عامر عزیز کو اسامہ بن لادن کے ساتھ تعلق کے شبے میں ہماری کچھ ایجنسیوں نے امریکی خواہشات پر اُٹھا کر غائب کردیا، اُس وقت جس حوصلے، ہمت اور دلیری کا مظاہرہ اُنہوں نے کیا وہ ایک بہادر اور صبر والی خاتون ہی کرسکتی ہے، ……اُن کی بہو (بیگم عامر عزیز) بھی اُن ہی کی طرح کی ایک عظیم اور انتہائی صبر شکر کرنے والی خاتون تھیں، یہ گھرانہ ان دونوں عظیم خواتین کی وجہ سے چلتا تھا، نوشین بھابی نے عامر عزیز صاحب کی والدہ کی بیماری کے طویل عرصے میں جتنی اُن کی خدمت کی، ایسی خدمت کا تصور اِس ”برائلرمعاشرے“ کی کوئی بہو کرہی نہیں سکتی، ایسی ہی خدمت میری بیگم نے بھی میری ماں کی، کی تھی، میری والدہ کو میری بیگم سے اِس قدر محبت تھی میری بیگم ایک آدھ دن کے لیے امی سے اجازت لے کر اپنے بھائی کے گھرچلی جاتیں رات کو امی اُسے واپس بُلالیتیں کہ میرا دِل نہیں لگ رہا، بیگم کے ساتھ کبھی کبھار ہونے والی نوک جھونک میں امی نے کبھی میرا ساتھ نہیں دیا تھا، کسی بات پر چاہے میں حق پر ہی کیوں نہ ہوتا وہ میری بیگم کی طرف دار ہوتی تھیں، ایک بار ایسے ہی کسی بات پر میں نے بیگم کو ذرا اُونچی آواز میں ڈانٹا، امی اندر کمرے میں کریلے چھیل رہی تھیں، وہ چُھری لے کر باہر آگئیں، اِس سے پہلے کہ وہ چُھری سے باقاعدہ طورپر مجھ پر حملہ آور ہوتیں، میں نے فوراً بیگم سے معافی مانگ لی، …… اور میری بیگم کی میری ماں سے محبت کا یہ عالم تھا ایک بار ہم امریکہ گئے ہوئے تھے، وہاں ہمارا قیام ذرا طویل ہوگیا، ایک روز میری بہن نے میری بیگم کو فون پر بتایا امی کے ناخن بہت بڑھ گئے ہیں، وہ ناخن نہیں کٹوا رہیں، وہ کہتی ہیں ”میری وڈی نوں (بہو)آکے میرے ناخن کاٹے گی“،…… میری بیگم نے جب یہ سنا مجھ سے وہ کہنے لگی ”مجھے فوراً لاہور واپس جانا ہے، میں نے امی کے ناخن کاٹنے ہیں“…… ایسی ہی محبت بھابی (مرحومہ) نوشین عامرعزیز کو بھائی جان عامر عزیز کی والدہ سے تھی،وہ طویل عرصہ بیمار رہیں، بھائی جان عامر عزیز نے اُن کی خدمت کا حق ادا کردیا، مگر اُن کی خدمت کا جو حق بھابی نوشین نے ادا کیا یہ توفیق بہت کم بہوؤں کو ہوتی ہے، بلکہ سچ پوچھیں اب ہوتی ہی نہیں، شاید یہی وجہ ہے عامر بھائی کی والدہ نے اپنی خدمت گزار بہو کو بہت جلد اپنے پاس بلا لیا، میں پورے وثوق سے کہتاہوں یہ دونوں خواتین جنتی ہیں، ……بھائی جان عامر عزیز کے ساتھ میرا ایسا تعلق ہے وہ گھر میں موجود ہوں نہ ہوں ہمیں اُن کے گھر جانے میں کبھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی، نوشین بھابی بہت مہمان نواز تھیں، کبھی کبھار میں اور میری بیگم اُنہیں بتائے بغیر اچانک اُن کے گھر چلے جاتے وہ اعلیٰ کھانوں سے ہماری تواضع کرتیں، ہمدرد وہ اِس قدر تھیں ایک بار میں اورمیری بیگم اُن کے گھرگئے، اُس روز اُن کے گھر میں شاید کوئی ملازم نہیں تھا۔ ٹرے سجاکر باہر میرے ڈرائیور کو خود چائے دینے وہ چلی گئیں، وہ ایک گریس فل خاتون تھیں۔ ایسی صبروالی اور شکر ادا کرتے رہنے والی خاتون شاید ہی اپنی زندگی میں، میں نے کبھی دیکھی ہو، کیسے کیسے لوگوں کو یہ کورونا کھاگیا، اور ہم پیچھے رہ گئے اُنہیں یاد کرنے والے …… کبھی کبھار میری امی یا میری بیگم کوئی خاص کشمیری ڈش ہریسہ یا دیسی مرغی بناکر اُنہیں بھجواتیں، رات کو اُن کا فون آجاتا، اتنی محبت سے وہ شکریہ ادا کرتیں جیسے ہم نے کوئی بہت بڑی سوغات اُنہیں بھجوادی ہو، ڈرائیور جب اُن سے کہتا ”برتن واپس کردیں“ وہ فرماتیں ”میں بعد میں بھجوادوں گی۔بعدمیں اُن برتنوں میں کچھ نہ کچھ ڈال کر وہ بھجوادیتیں، عامر عزیز صاحب خود لے کر آتے، میں جب اُن سے گلہ کرتا اِن تکلفات کی کیا ضرورت تھی؟ تب اُن کی امی زندہ تھیں وہ فرماتے”امی داحکم سی“۔ …… اُن کی وفات کے بعد فرماتے ”اے نوشین نے بھجوایا اے“……”خاندان عامر عزیز“ اپنی دیرینہ اخلاقی روایات سے کبھی غافل نہیں ہوا، یہ انتہائی رکھ رکھاؤ والے لوگ ہیں جن کے ساتھ ایک ذاتی تعلق پر مجھے ہمیشہ بڑا مان رہا، ……کیسے کیسے شاندار لوگ ہماری زندگیوں سے چلے گئے، نوشین بھابی کو یاد کرتے ہوئے مجھے بار بار اپنی ماں یاد آرہی ہے، وہ بھی بڑی عظیم خاتون تھیں، ایک بار وہ کمر کی سخت تکلیف میں مبتلا ہوگئیں، اُن کی کمر کے دو مہرے ہل گئے تھے، تب ڈاکٹر عامر عزیز صاحب سے ہماری شناسائی نہیں تھی تو ہم اُن کو علاج کے لیے شملہ پہاڑی پر واقع ڈاکٹر زرینہ عباس نیازی کے پاس لے جاتے تھے، اُن دنوں امی زیادہ تر بیڈ پر پڑی رہتیں۔ ایک بار ہماری ایک محلے دار خاتون باجی روکیہ ہمارے گھر آئیں، آتے ہی امی سے پوچھنے لگیں ”تہاڈے گھر اج گڑوالے چول (چاول) پکے نیں؟“۔……امی بولیں ”نئیں باجی اسی تے اج بھنڈیاں پکائیاں نیں“……اُس نے امی سے کہا ”اچھا مینوں تے گڑ والے چاؤلاں دی خوشبو آرئی اے“…… کچھ دیر بعد وہ چلی گئیں، ہم باہر صحن میں جاکر کھیلنے لگے۔ کچھ دیر بعد میں اندر آیا میں نے دیکھا امی سخت تکلیف کی حالت میں کمر پر ہاتھ رکھ کر کچھ پکا رہی تھیں، میں نے پوچھا ”یہ آپ کیا کررہی ہیں؟“…… کہنے لگیں ”باجی روکیہ آئی سی اوہ کہہ رہی سی تہاڈے گھروں گڑوالے چاولاں دی خشبو آرہی اے۔ میں سوچیا اوہدی خشبوسچی کردیاں“ ……پھر گڑ والے چاول بناکر اُس کے گھر بھجوادیئے، اُس کی خوشبوسچی کردی،…… ایسی اخلاقی خوشبوؤں سے مکمل طورپر اب ہم محروم ہوچکے ہیں، یہ شاید اِسی محرومی کا نتیجہ ہے اعلیٰ اقدار والے لوگ ہم سے بچھڑتے جارہے ہیں، جیسے ابھی ابھی نوشین بھابی ہم سے بچھڑ گئیں،…… نماز جنازہ میں اُن کے بڑے صاحبزادے ڈاکٹر عمر عزیز حوصلے میں تھے، چھوٹے صاحبزادے ڈاکٹر اسد عزیز غم سے نڈھال تھے۔ بھائی جان عامر عزیز کو دُور سے میں دیکھ رہا تھا، وہ بڑے حوصلے سے لوگوں سے مِل رہے تھے، مجھ میں یہ حوصلہ نہیں تھا میں گلے سے لگاکر اُن سے تعزیت کروں، بڑی ہمت کرکے میں اُن کے پاس گیا، وہ دیرتک مجھ سے لپٹے رہے اور زاروقطار روتے رہے، وہ خود بھی کورونا کی سخت آزمائش سے دوچاررہے، دوروز قبل میری اُن سے بات ہوئی، کہنے لگے ”میں تو اب کچھ بہتر ہوں، نوشین کی حالت ٹھیک نہیں ہے، اُس کے لیے دعا کریں …… ہم گناہ گاروں کی دعائیں کب قبول ہوتی ہیں؟؟؟!!