کئی دفعہ روح پر اضطراب کے نشتر چلے اور روح کے زخموں کو مندمل کر نے کے لئے جب کوئی جائے پنا ہ نہ ملتی تو ہمیشہ کی طرح ولی خدا، سید علی الہجویر ؒ کے مزار اقدس سے ملحق صحن میں گھنٹوں لیٹے رہنا اور رات کی تاریکی میں چمکتے ستاروں کو بغور دیکھتے ہوئے اپنے رب سے ہم کلام ہونا۔ اپنے دل کی ہر بات اس کے سامنے رکھ دینا۔ یوں کچھ ہی دیر میں، جو زندگی بوجھ محسوس ہوتی تھی وہ نعمت معلوم ہونا شروع ہو جاتی تھی۔ اب بھی کبھی روح و جسم کے درمیان کشمکش پیدا ہوتی ہے تو بغیر کسی کو اطلاع دئیے معمول کے مطابق سید علی الہجویر ؒ کی خدمت میں حاضر ہوتا ہوں اور یوں یہ کشمکش کچھ ہی دیر میں تھم جاتی ہے اور یوں میں سکون اور اطمیان قلب کے رستے کا مسافر بن جاتا ہوں۔
قارئین کرام! چونکہ میں علم بشریات کا ایک معمولی سا طالبعلم بھی ہوں، لہذا لوگون کے چہروں سے عیاں ہونے والی،درد میں لپٹی کہانیوں اور آرزؤں کو سمجھنے میں کسی دقت کا سامنا نہیں کر نا پرتا اور چونکہ میں خود بھی ایسے ہی مراحل سے گذرا اور گذرتا ہوں، اس لئے چہروں سے شنا سائی بہت آسان ہو جاتی ہے۔ سید ہجویر ؒ کے آنگن میں پناہ لینے والے بہت سے لوگوں کا مجھ جیسا ہی حال ہے۔کرب و الم و مشکلات زندگانی سے تنگ، یہ بھی میری طرح یہاں سے سکون اور اطمینان قلب حاصل کرنے آتے ہیں۔ لطف کی بات تو یہ ہے کہ یہاں ایک لمحے کے لئے بھی لنگر موقوف نہیں ہوتا، لاکھوں مساکین و محتاج یہاں سے اپنی بھوک مٹاتے ہیں۔ ان تمام تر انتظامات کو با احسن سر انجام دینے والے ڈائیریکٹر جنرل اوقاف، ڈاکٹر طاہر رضا بخاری، بلاشبہ خود بھی روحانی شخصیت کے مالک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر آنے والے سال میں سید ہجویر ؒ کی تعلیمات کو فروغ دینے والی تمام تقریبات میں اضافہ ہوتا چلاجا رہاہے۔
سید علی ہجویری فیکلٹی آف اورینٹل لرننگ، پنجاب یونیورسٹی اور محکمہ اوقاف و مذہبی امور پنجاب، لاہور کے زیر اہتمام الرازی ہال قائد اعظم کیمپس میں ”عصری، تہذیبی مسائل اور سید ہجویریؒ کی تعلیمات“ کے موضوع پر سہ روزہ عالمی تصوف کانفرنس کی افتتاحی تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ اس کے بعد ملک کے معروف تعلیمی ادارے گورنمنٹ کا لج میں بڑے اہتمام کے ساتھ اسی موضوع پر سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا جس کی خوبصورتی یہ تھی کہ یہاں استاذ العصر پروفیسر احمد رفیق اختر نے اپنے استاد، سید ہجویر ؒ کے بارے بڑے جامع و مفصل گفتگو فرمائی جبکہ وائس چانسلرسید اصغر زیدی، جو خودبھی روحانی و علمی شخصیت ہیں نے ا س موقع پر، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں ابوالحسن شاذلی ؒ انسٹی ٹیوٹ اور سید علی ہجویر ؒ چئیر قائم کر نے کا بھی اعلان کیا۔ حیران کن بات مجھے جو معلوم ہوئی وہ یہ تھی کہ وائس چانسلر، یونیورسٹی سے متعلقہ تمام اہم فیصلے مسجد میں بیٹھ کر کرتے ہیں اور وہ مسجد کو ایسا انسٹی ٹیوٹ بنا نے پر مصروف ہیں جہاں صرف نماز ہی نہ پڑھی جاتی ہو بلکہ دور نبوی ﷺ کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے دیگر اہم معاملات بھی یہاں طے کئے جائیں۔ یہاں بھی ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ؒ، تعلیمات سید ہجویر ؒ پر خوب بولے اور کمال بولے۔ بولتے ہوئے ان کی آواز کا لرکھڑانا اور آنکھوؤں سے آنسوؤں کا بہنا، اس بات کی دلیل ہے کہ طاہر رضا بخاری کو بطور ڈائریکٹر جنرل کہیں اور سے منتخب کیا گیا ہے۔
قارئین محترم!مجھے، جناب ملک خالد یعقوب کی وساطت سے عالمی کانفرنس کے دونوں ایام میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی۔ انتہائی منظم، متحرک اور بہترین ٹیم ورک کے نتیجے میں، آنے والے زائرین کو بہترین سہولیات فراہم کرنا اور ایک اندازے کے مطابق صرف عرس مبارک کے ایام میں 12سے 15لاکھ لوگوں کا سلام پیش کرنے آنا اور ان تمام کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر سب کو حاضری کا موقع دینا، بلا شبہ محکمہ اوقاف کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حضرت سید ہجویر ؒ کے 978ویں عرس کے موقع پرمنعقدہونے والی سہ روزہ عالمی کانفرنس میں پاکستان سمیت تیونس، یمن، برطانیہ، ترکی، افغانستان، ایران،امریکہ، ہندوستان کی معروف دانش گاہوں، علمی حلقوں اور روحانی درگاہوں کی معتبر شخصیات نے بھی شرکت کی۔آنے والے مہمانا ن گرامی نے اس اہم ترین کوشش کو تحسین کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے اس امر پراتفاق کیا کہ آج اْمّتِ مْسلمہ ہر طرف سے جس نوعیت کے مصائب ومشکلات اور تذبذب وتشکیک کا شکار ہے۔ ان حالات میں حضرت سید ہجویرؒکے حیات بخش فرمودات اور اْن انقلاب آفرین تعلیمات سے روشنی حاصل کی جائے، جو زندگی کو عمل، حرکت اور جْہدِ مسلسل سے مزّین کرنے اور ایک روشن اوربلند نصب العین سے منوّر کرنے کا پیغام دے رہی ہے۔ اس سہ روزہ عالمی کانفرنس، جس میں وطنِ عزیز پاکستان کے معروف ومعتبر سکالرز اور ہجویریات کے ماہرین اور معاصر اسلامی دنیا کے محققین پوری دردمندی اور دلسوزی کے ساتھ اس حقیقت کے ابلاغ پر متفق ہیں کہ سید ہجویرؒکے پیغام کی اس حقیقی روح اور حیات بخش افکار اور تعلیمات کو عام کیا جائے۔