ڈبلیو ایچ او، صحت مند مستقبل کے لئے کوشاں

Asma I Abdulmalik, Daily Nai Baat, e-paper, Pakistan, Lahore

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں سب سے آگے رہی ہے لیکن اس کو وبا کے ابتدائی دنوں میں ہی نہیں بلکہ اب تک شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ تنظیم چین کے کنٹرول سسٹم سے بہت زیادہ متاثر تھی اور اکثر بیجنگ کے پیغامات ہی دوہراتی رہی ہے۔ عالمی سطح پر صحت بارے ایمرجنسی کا اعلان کرنے میں اس نے بہت زیادہ وقت ضائع کر دیا اور کورونا کو وبائی مرض قرار دے کر اس سے متنبہ کئے جانے تک 4000 اموات ہو چکی تھیں۔ وبا کے عروج کے دنوں میں بہت زیادہ جعلی اموات کی خبروں کے باعث کورونا کے پہلے سے موجود خوف میں حد درجہ اضافہ ہوا جس سے تنظیم کی بدنامی ہوئی اور اس کے وجود پر سوال بھی اٹھے۔ ان حالات میں ڈبلیو ایچ او کے سب سے بڑے ڈونر امریکہ نے اس سے تعلقات منقطع کر لئے اور اس کی مالی اعانت بھی روک دی۔ یہاں میرا ارادہ ڈبلیو ایچ او کی ساکھ کو داغدار بنانے یا پالش کرنے کا نہیں کہ اس تنظیم نے وبائی مرض کے ابتدائی ہفتوں کے دوران ہی نہیں بلکہ اپنی پوری تاریخ میں بھی خاصی غلطیاں کی ہیں۔ 2013-15 میں مغربی افریقہ میں ایبولا پھیلنے کے دوران اس کی ناکامیاں سبھی کو یاد ہیں اور اس کا سست ردعمل بھی جس کے نتیجے میں 11,000 سے زائد افراد کی موت واقع ہوئی تھی۔ تو سوال یہ ہے کہ کیا ہمیں اب بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ضرورت ہے؟ واضح طور پر، ہاں۔ یہاں کوئی دوسرا ادارہ یا ملک نہیں ہے جو صلاحیت کے معاملہ میں ڈبلیو ایچ او کا کردار نبھا سکے۔ اگرچہ عالمی سطح پر صحت کے شعبہ میں کام کرنے والی تنظیموں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے مگر صرف ڈبلیو ایچ او کے 194 ممبر ممالک ہیں جس کی وجہ سے وہ اجتماعی کارروائی طور پر کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہ ادارہ تحقیقاتی کام کو ترویج دیتا ہے، اس کے 
ہزاروں کارکن ناموافق اور سخت حالات میں دور دراز علاقوں میں کام کر رہے ہیں، وہ مقامی پالیسیوں میں تبدیلی اور کثیرالجہتی شراکت داری کو فروغ دیتے ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد قائم کئے گئے عالمی ادارہ صحت کا کردار صحت کی ہنگامی صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لئے اقوام عالم میں اتحاد اور شراکت کا ایک مربوط اور عالمی نیٹ ورک بنانے میں بہت اہم ہے۔ تقریباً 4.4 بلین ڈالر کے سالانہ بجٹ کے ساتھ، اس نے ایبولا ویکسین کی تیاری سمیت صحت کے متعدد شعبوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس کا قابل ذکر کارنامہ دنیا بھر میں ایک مربوط مہم کے ذریعے چیچک کا خاتمہ ہے۔ ڈبلیو ایچ او جیسی کثیر القومی تنظیمیں ان ذمہ داریوں کو تنہا نہیں نبھا سکتیں۔ اس کے لئے حکومتوں، نجی ڈونرز، مخیر حضرات اور اختراع کاروں کے تعاون کی ضرورت ہے۔ اس کی ایک کامیاب مثال پولیو کے خاتمہ کا عالمی اقدام (جی پی ای آئی) ہے جس کی سربراہی قومی حکومتوں کے ساتھ پانچ شراکت دار کر رہے ہیں۔ جن میں ڈبلیو ایچ او، روٹری انٹرنیشنل، امراض سے روک تھام کا امریکی ادارہ، یونیسف، بل گیٹس فاؤنڈیشن، شیخ محمد بن زید النہیان اور ابو ظہبی کے ولی عہد شہزادہ شامل ہیں۔ ایک سال قبل، ڈبلیو ایچ او کے مطابق، جی پی ای آئی نے ابوظہبی میں ہونے والے فورم کے دوران عطیہ دہندگان سے اضافی 2.6 بلین ڈالر وصول کیے تھے۔ گیٹس فاؤنڈیشن نے سب سے زیادہ 1.08 بلین کا وعدہ کیا، اس کے بعد برطانیہ نے 514.8 ملین کا اعلان کیا۔ ابو ظہبی کے شہزادے، گیٹس فاؤنڈیشن کے ساتھ ایونٹ کے شریک میزبان، نے 160 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا۔ 2014 میں شیخ محمد نے امارات پولیو مہم کا آغاز کیا، جو متحدہ عرب امارات پاکستان امدادی پروگرام کا ایک حصہ ہے، جس کے تحت پاکستان میں اب تک 86 ملین سے زائد بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جا چکے ہیں۔ آج ہم پولیو کو مکمل طور پر ختم کرنے کے درپے ہیں، جس کے صرف 132 (افغانستان میں 53، پاکستان میں 79) کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔ 
شراکت کا یہ ماڈل ان ناقابل یقین کامیابیوں کی مثال ہے جن کو ہم مشترکہ مقصد کی خاطر اکٹھے ہو کر حاصل کر سکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی کوتاہیوں کے باوجود ڈبلیو ایچ او کا متبادل تلاش کرنا قریب تر ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کا تنظیم کی مالی اعانت روکنے کا فیصلہ احمقانہ ہی نہیں بلکہ خطرناک تھا۔ اسی وجہ سے بطور صدر بائیڈن کے ابتدائی فیصلوں میں ایک ڈبلیو ایچ او میں شمولیت ہونا چاہئے۔ جو لوگ عالمی ادارہ صحت پر تنقید کرتے ہیں وہ ایک منٹ کے لئے اس خلا پر غور کریں جو اس کی عدم موجودگی سے پیدا ہو گا۔ کوئی بھی ملک ڈبلیو ایچ او کے بغیر عالمی صحت کے کارکن کے طور پر آزادانہ کام نہیں کر سکتا۔ یہ سچ ہے کہ ڈبلیو ایچ او مکمل آزادی کے ساتھ کام نہیں کر سکتا کہ اس کا انحصار دوسری اقوام کی مالی اعانت پر ہے، اور یہ کہ اس کی طاقت بھی محدود ہے، پھر بھی وہ بہت کچھ حاصل کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ ہم کسی بھی تنظیم کو غلطیوں سے پاک قرار نہیں دے سکتے، تو یقیناً بہتر طریقہ یہ ہے کہ دھونس دینے یا تعلقات توڑنے کے بجائے اس کی کوتاہیوں کو حل کیا جائے۔ ایسی دنیا میں، جو بڑھتے ہوئے قوم پرستی جذبات سے گہری وابستگی رکھتی ہے، بین الاقوامی اداروں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ گلوبل گورنس کے ادارے اور بین الاقوامی تعاون اب بھی اشد ضروری ہے۔ ہم نے یقینی طور پر وبا کے ساتھ گزرنے والے موجودہ سال کے دوران یہی سیکھا ہے۔ ہمیں اس شراکت داری کو فروغ دینا چاہئے اور اختراعاتی سوچ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
(بشکریہ: گلف نیوز)