واشنگٹن: امریکہ کی ایک فیڈرل جیوری نے القاعدہ میں شمولیت اختیار کرنے والے امریکی شہری کو 2009 میں افغانستان میں ایک امریکی فوجی اڈے پر ہونے والے ناکام خود کش بم حملے کا مجرم قرار دیا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق نیویارک کی فیڈرل جیوری نے یہ فیصلہ مہند محمود علی الفارغ کے خلاف دیا ہے جس کا تعلق امریکہ کے شہر ہیوسٹن سے ہے۔فارغ کا مقدمہ اس وجہ سے زیادہ توجہ کا مرکز بنا کیونکہ اطلاعات کے مطابق امریکی عہدیداروں نے ابتدائی طور پر اس بات پر غور کیا کہ اسے ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کی کوشش کی جائے لیکن عملی طور پر ایسا کوئی قدم کسی امریکی شہری کے خلاف نہیں اٹھایا گیا۔ اس کی بجائے سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ نے بالآخر ان کو پکڑ کر سول عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا۔فارغ کو پاکستان سے حراست میں لیے جانے کے بعد 2015ء میں امریکہ لے جایا گیا۔
نیویارک کی ایسٹرن ڈسٹرکٹ کی قائم مقام اٹارنی جنرل بریجٹ رہوڈ نے کہا کہ القاعدہ کے ایک امریکی رکن کو امریکہ کی عدالت میں سزا وار قرار دیا گیا ہے ۔انہوں نے کہا کہ فارغ کو امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی کوشش اور دنیا کی ایک بڑی دہشت گرد تنظیم سے وابستہ ہونے کے جرم میں ممکنہ طور پر عمر قید کی سزا سنائی جا سکتی ہے۔فارغ کے وکیل کی طرف سے فوری طور کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔
انہوں نے عدالت میں موقف اختیار کیا تھا کہ فارغ کو مجرم قرار دینے لیے فرانزک شہادت بہت کمزور ہے اور اس کی بجائے انہوں نے فنگر پرنٹ کے ماہرین کو طلب کرنے کا کہا تھا۔فارغ کے خلاف عائد کیے جانے والے الزامات میں سے زیادہ تر کا تعلق خوست کی فارورڈ آپریٹنگ بیس "چیپ مین" پر 19 جنوری 2009ء میں ہونے والے حملے سے ہے۔حملہ آوروں نے باردو سے بھری ہوئی دو گاڑیوں کے ذریعے حملہ کرنے کی کوشش کی۔ ابتدائی طور پر ہونے والے دھماکے میں کئی افغان شہریوں سمیت ایک خاتون زخمی ہوئیں تاہم ایک بڑا بم پھٹنے میں ناکام ہو گیا جس کی وجہ سے کئی امریکی فوجیوں کی جانین بچ گئیں۔
فارغ کو امریکی شہریوں کو قتل کرنے کی سازش کرنے، لوگوں کو بڑی تعداد میں ہلاک کرنے کا ہتھیار استعمال کرنے، سرکاری تنصیبات پر بم حملہ کرنے کی سازش اور دہشت گردوں کو مالی معاونت فراہم کرنے کے لیے ساز باز کرنے کے جرم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔