وہ لب کشاء ہوا بھی تو کچھ ایسے
نفرتوں نے گھیر لیا ہو آنگن کو جیسے
پھر ہوا یہ کہ لاکھ چاہنے کے باوجود سچ ہونٹوں پر آہی گیا۔پسِ پردہ پنہاں رازِ دل سرِ آئینہ آگیا۔ کسے معلوم تھا کہ صبح نو کی نوید سنانے والا درحقیقت روزِ اسود کا متلاشی ہے۔نفرتوں کی فصل کی کامیابی تیاری کے بعد اب میرِ قافلہ سروں کی فصل کاٹنے کا پیغام دے رہا ہے۔ خدا نہ کرے کہ اگر ایسا ہوتا ہے تو پھر اگلی نسل گورکنوں کی ہو گی جن کا کام بس لاشوں کو سپردِ خاک کرنا باقی رہ جائے گا۔سوچا نہ تھا کہ اقتدار کی ہوس اس قدر شدید ہوتی ہے کہ انسان اسکے لیے پورا گلشن ہی آتش سوزاں کے حوالے کرنے پر تُل جائے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان بالآخر راز ِ دل بتا ہی دیا۔ موصوف کہتے ہیں کہ میں گزشتہ چھ ماہ سے ملک میں ایک انقلاب کا مشاہدہ کر رہا ہوں کہ آیا یہ بیلٹ باکس کے ذریعے نرم ہوگا یا خونریزی کے ذریعے تباہ کن؟اُ ن کے اس بیان کو اگر حال ہی میں لیک ہونے والی عمران خان کے دستِ راست علی امین گنڈا پور کی مبینہ آڈیو سے ملا کر دیکھا جائے جس میں وہ اپنی پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے ساتھ تحریک انصاف کی آزادی مارچ کے موقع پر اسلام آباد میں بھاری مقدار میں اسلحہ کی فراہمی کے حوالے سے بات کرتے نظر آتے ہیں اور بعد ازاں وہ اس کی تردید بھی نہیں کرتے بلکہ اس عمل کو درست قرار دیکر؛ اس پر اصرار کرتے نظر آتے ہیں، تو ساری گتھیاں سلجھتی نظر آتی ہیں۔ غور طلب امر یہ ہے کہ کیا قوم کے رہنما واقعی ایسے ہوتے ہیں؟ جہاں تک تحریک انصاف کے زعماء اور کارکنوں کا تعلق ہے وہ عمران خان کو قائد ِ ثانی کہتے نہیں تھکتے۔ لیکن کیا عمران واقعی بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد قائدِ ثانی کہلانے کے عملاً حقدار ہیں؟ اگر قائد اعظم کی شخصیت کو دیکھیں تومعلوم ہوتا ہے کہ ایک ملک کی تشکیل کے عظیم فریضہ کی سرانجام دہی کے دوران انہوں نے نہ تو اپنے خطابات میں کبھی اخلاق باختہ طرز عمل اپنایا، نہ ہی اپنے سیاسی کیئریر میں یوٹرن لیا اور نہ ہی خونی انقلاب کی باتیں کیں۔ثا بت ہوا کہ لیڈر وہ ہوتے ہیں جو قوم میں نہ تو نفرت کے بیج بوتے ہیں، نہ ہی یوٹرن لیتے ہیں اور نہ ہی گلے کاٹنے کی باتیں کرتے ہیں۔وہ جانتے ہیں کہ لاکھوں لوگ اُن کی پیروی
کرتے ہیں،اسلیے اُن کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ اپنی ایک خاص اہمیت اورلوگوں پرگہرے اثرات رکھتے ہیں۔اہم بات یہ ہے کہ عمران خان اس وقت فرسٹریشن کا شکار نظر آتے ہیں۔ اسی فرسٹریشن میں وہ اپنے زبان و بیان پر مزید کنٹرول کھوتے نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو پلان ان کے سینہ میں کہیں پوشیدہ تھا، نے اُن کے الفاظ کا لبادہ اوڑھنا شروع کردیا ہے۔ ایسے میں تاریخ بتاتی ہے کہ ایسی تحریکوں کو انسانی لاشوں کی ضرورت ہوتی ہے، جن کے ملنے سے ان میں خوب تیزی آجاتی ہے۔خدا نخواستہ اگر پی ٹی آئی کے آزادی مارچ پر کسی مقام پر کو کوئی تخریبی کاروائی ہوتی ہے تو انسانی جانوں کا ضیاع اس تحریک میں نئی جان ڈال سکتا ہے تاہم اس سے وطن عزیز انتشار و بربادی کی نئی نہج پر پہنچ سکتا ہے۔ آزادی مارچ میں ہنوز لوگوں کی تعداد عمران خان اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ کی اُمیدوں کے برعکس رہی ہے۔ دعویٰ لاکھوں لوگوں کا تھا تاہم لاہور سے لیکر گوجرانوانہ تک چند ہزار سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوتے نظر نہیں آئے۔ خود عمران خان رات مارچ کو چھوڑ کر گھرواپس جاتے نظر آئے۔ پنجاب حکومت کی بھرپور سرپرستی کے باوجود لوگوں کی ایک بڑی تعداد مارچ میں شامل نہیں ہورہی اس پرمیڈیا کے کیمروں نے تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کو آپس میں بحث و مباحثہ کرتے ہوئے بھی دیکھایا۔ یہ حقیقت بھی طشت ازبام ہوچکی ہے کہ ارادتاً یا غیر ارادتاً تحریک انصاف جس ایجنڈے پر چل رہی ہے بظاہر اس کا مقصد اقتدار کا حصول نظر آتا ہے تاہم اس کے اثرات مشکلات میں گھرے ملک ِ پاکستان پر اس سے بھی کہیں زیادہ گہرے مرتب ہوسکتے ہیں۔ یہ تحریک ملک و قوم کو ایک سیاسی انتشارو معاشی ابتری کے ایک ایسے منجھدار میں پہنچا سکتی ہے جہاں سے نکلنے پھر ناممکن تو نہ سہی، مشکل ترین ضرور ہوگا۔ تحریک ِ انصاف کی یہ لڑائی اب واضح طور پر اپنے سیاسی مخالف پی ڈی ایم سے کہیں زیادہ فوج کے خلاف نظر آتی ہے، جسکا براہ راست فائدہ یقینا پاکستان دُشمن قوتوں کو ملے گا جو ففتھ جنریشن وار فئیر کے تحت پاکستانی عوام کو فوج سے لڑانا کر ملک کو کمزور کرنا چاہتی ہیں۔ایسے میں نواز شریف اور وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان یہ سب کچھ مرضی کا آرمی چیف لگوانے کے لئے کر رہے ہیں۔
پاکستان کی خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کا حالیہ پریس کانفرنس میں یہ کہنا کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے رواں برس مارچ کے مہینے میں فوج کے سربراہ قمر جاوید باجوہ کو غیر معینہ مدت کی توسیع کی پیشکش کی تھی جسے قبول نہیں کیا گیا، خاصی اہمیت کا حامل ہے۔ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے جمعرات کو غیر معمولی طور پر فوج کے ترجمان لیفٹینینٹ جنرل بابر افتخار کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس میں شرکت کی جس میں دونوں نے سائفر کے معاملے، اس پر تحریک انصاف کی جانب سے ’گمراہ کن‘ سیاسی بیانیہ ترتیب دینے اور ارشد شریف کی ہلاکت سے متعلق واقعات پر تفصیلی گفتگو کی۔
اس پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس آئی کا مزید کہنا تھا کہ ’آپ کو اپنی رائے کے اظہار کا حق ہے۔ لیکن اگر آپ کا دل مطمئن ہے کہ آپ کا آرمی چیف غدار ہے تو ماضی میں اُن کی اتنی تعریف کیوں کی گئی اور یہ پیشکش کیوں کی گئی کہ اگر پوری زندگی بھی اس عہدے پر رہنا چاہتے ہیں تو رہ لیں۔‘انھوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ’اب بھی آپ چھپ کر اُن سے کیوں ملتے ہیں؟ رات کو آپ ہم سے غیر آئینی خواہشات کا اظہار کریں، وہ آپ کا حق ہے، لیکن پھر دن کی روشنی میں جو کہہ رہے ہیں وہ نا کہیں۔ آپ کی گفتگو میں کھلا تضاد ہے۔‘
عمران خان یقینا اپنے سیاسی کزن پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری کی کمی کو شدت سے محسوس کر رہے ہونگے۔ وہ ہوتے تو آزادی مارچ میں شرکاء کی تعداد کہیں زیادہ ہوتی بلکہ کارکنوں کا جوش و خروش بھی دیدنی ہوتا تاہم شنید یہی ہے کہ طاہر القادری نے اپنے کارکنوں کو اس تحریک میں شامل ہونے سے سختی سے روک دیا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ قربانیوں ہم دیں اور حکومت کا مزہ پی ٹی آئی لے، یہ مزید گوارہ نہیں۔ تاہم وزیر اعلیٰ پرویز الٰہی کے احکامات ملنے کے بعد پولیس نے طاہر القادر ی کے خلاف ایک درجن سے زائد مقدمات میں سے کم ازم کم نو مقدمات کو خارج کردیا ہے اور باقی چند مقدمات جن میں طاہر القادری اشتہاری ہیں، کے خاتمے کے لئے عدالت سے رجوع کیا جاچکا ہے۔