شینن نینجل ہاورڈ یونیورسٹی میں بائیوبلاسٹک پر پوسٹ ڈاکٹریکٹ کررہی ہیں، اُن کا ماننا ہے کہ بائیوبلاسٹک کے ذریعے نہ صرف زمین پر موجود ماحولیاتی و انسانی مسائل کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے بلکہ مریخ پر بھی زندگی کوممکن بنایا جاسکتا ہے، یہ روایتی طرزِ سوچ سے ہٹ کر کام کیا جارہا ہے، دنیا میں جامعات کا جدید رجحان بھی یہی ہے کہ ایسی تحقیق کی جائے جس سے انسانی زندگی میں بہتری، ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو پایا جائے اور دنیا کو خوبصورت سے خوبصورت ترین بنایا جائے۔ بلاشبہ امریکہ جدید عصری علوم کی طاقت کے زور پر دنیا پر حکمرانی قائم کئے ہوئے ہے۔صنعتی انقلاب نے جہاں دنیا بھر کے ممالک کا طرزِ حکمرانی بدلا،وہیں کئی ممالک خصوصاََصفِ اول کی دنیا کے عوام کا طرزِ رہن سہن بھی بدل گیا ہے، صنعتی وسعت نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کو جنم دیا جس سے روایتی طرزِ رہن سہن، روایتی مطالبات، روایتی ذرائع آمدورفت میں واضح تبدیلی سامنے آئی، اسی طرح دنیا کو دیکھنے، سمجھنے اور آگے بڑھنے کے روایتی طریقہ ِ سوچ میں نمایاں تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔پنجاب یونیورسٹی پاکستان کی پہلی بڑی یونیورسٹی ہے جہاں مختلف شعبہ جات جدید رجحانات پر کام کررہے ہیں، کچھ عرصہ قبل کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ جدید سائنسی علوم کے پھیلاؤ، روایتی طریقہ ِ تدریس میں بدلاؤ اور دنیا کی جدید جامعات کی صف میں شامل ہونے کی تمنا جنوبی پنجاب کی کسی بھی سرکاری یونیورسٹی میں پیدا ہوسکتی ہے، لیکن یہ ممکن ہوا ہے،حیران کن حد تک یہ ممکن ہوا ہے، گزشتہ روز احمد پورشرقیہ میں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور نے اپنا کیمپس قائم کرنے کی بنیاد ڈالی تو یہ خبر مختلف اخباروں کی زینت بنی، تواس تاریخی شہر سے جڑی ماضی کی کئی کہانیاں آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہوگئیں، بلاشبہ یہ وہ شہر ہے جہاں سے حکیم الامت ڈاکٹر علامہ اقبال کی شاعری کو پروان چڑھنے کا موقع ملا، اس حوالے سے نواب آف بہاولپور سر صادق خان عباسی پنجم کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی، اب اس شہر میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کے کیمپس کا قیام جہاں اس شہر کی اعلیٰ تعلیمی محرومیوں کے ازالے کا سبب بنے گا وہیں ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہونگے،
اس خبر کے بعد مجھے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی ویب سائٹ پر جاکر یونیورسٹی کو جاننے کا موقع ملا، ویب سائٹ کے پہلے صفحہ پر مہیا معلومات کو دیکھ کر میں ورطہِ حیرت میں ڈوب گیا کہ کیا یہ وہی یونیورسٹی نہیں جو دو سال قبل محض سرکاری وسائل پر انحصار کیے ہوئے تھی، جس کے مختلف شعبہ جات فنڈز کی کمی کے سبب دم گھٹنے سے آخری سانسیں لے رہے تھے، جہاں ملازمتوں کے نئے مواقع تو درکنارالٹا ملازمین کو مختلف حیلے بہانوں سے نکالا جارہا تھا، ایک جاننے والے سے گفتگو کے بعد معلوم ہوا کہ جب سے نئے وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے یونیورسٹی کی باگ ڈور سنبھالی ہے تو یوں لگنے لگا ہے کہ مہران کار میں جے ایف۔17تھنڈر کا انجن لگا دیا گیا ہو۔ مہیا معلومات کے مطابق دو سال کے قلیل عرصہ میں سات سے چودہ فیکلٹیز، چند درجن سے بڑھا کر شعبہ جات کی تعداد 129کر دی گئی ہے جن میں 300ڈسپلن چل رہے ہیں، اساتذہ کی تعداد 1800ہوگئی ہے جن میں 550سے زائد پی ایچ ڈی ہیں، صرف اتنا ہی نہیں بلکہ دنیا کی ایک ہزار بہترین جامعات میں سے اسلامیہ یونیورسٹی 637ویں اور پائیدار ترقی کے کل اہداف سے تین میں اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور پاکستان بھر میں پہلے نمبر پر آگئی ہے۔ جبکہ یونیورسٹی کے اندر بے پناہ ترقیاتی کام جاری کردیے گئے ہیں، دو سال قبل اور موجودہ صورتحال کو دیکھ کر کہیں سے محسوس ہی نہیں ہوتا کہ یہ وہی اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور ہے جو بنجر بے کراں کا منظر نامہ پیش کرتی تھی اور اب کی صورتحال کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے آنِ واحد میں کسی نے ہالی ووڈ سائنس فکشن فلم کی طرح ریت سے راتوں رات نیا شہر بسا دیا ہو، ہرطرف سبزہ، پھولوں کی کیاریاں، سڑکوں کی صفائی، کینٹین میں کوالٹی آف فوڈ، طلبہ و طالبات کے چہروں پر انمٹ مسکراہٹ سے یوں لگتا ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی یونیورسٹی ہو۔ تھوڑا مزید کریدنے پر معلوم ہوا کہ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اس سے قبل رحیم یار خان میں معروف صوفی بزرگ و سرائیکی شاعر خواجہ غلام فرید کے نام سے موسوم خواجہ فرید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بنیاد ڈالی۔ حکومتی ذرائع کے مطابق جہاں پر خواجہ فرید یونیورسٹی قائم کی گئی ہے وہاں صرف صحرا ہی نہیں تھا بلکہ ریت کے ٹیلے، کڑوا اور ترش پانی، موسم کی بے رحم لہروں سے تھپیڑے کھاتی چند بوسیدہ عمارتیں تھیں مگر تعلیم کے لحاظ سے وہاں یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالنا تقریباً ناممکنات میں سے تھا مگر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے اُسے چیلنج کے طور پر قبول کیا، دن میں روزانہ تین بار پیدل 275ایکڑ پر مشتمل یونیورسٹی کے بلاکس کا وزٹ کرتے اور ترقیاتی کاموں کا خود جائزہ لیتے، یوں محض چار سال کے عرصہ میں انہوں نے ریت سے آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی پر شکوہ عمارتیں کھڑی کردیں، جنوبی پنجاب کی پہلی آئی ٹی یونیورسٹی کی داغ بیل ڈالنے پر حکومت ِ پنجاب نے انہیں اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور کا وائس چانسلر تعینات کیا تو انہوں نے سرکاری فنڈز پہ ہچکولے کھاتی یونیورسٹی کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ آئندہ کئی سال کی منصوبہ بندی کرتے ہوئے جامع میں وسعت دی، اسلامیہ یونیورسٹی آف بہاولپور میں جاری ترقیاتی کاموں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام اور منصوبہ جات شاید اگلے چار سے پانچ وائس چانسلر کرتے مگر موجودہ وائس چانسلر انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب نے محض دو سال میں وہ کرشمہ کردکھایا ہے کہ دیکھنے والے کو یقین کم معجزہ زیادہ لگتا ہے۔ یہ سارے ترقیاتی کام چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی و گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان خان بزداراور صوبائی وزیر اعلیٰ تعلیم راجہ یاسر ہمایوں کی آشیر آباد کے بنا شاید ممکن نہ ہوں، مگر یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ کتنے وائس چانسلر فعال مثبت سوچ کے حامل ہیں جو ایوانِ اقتدار کو قائل کرنے کی ہمت اور اعتماد رکھتے ہیں۔ بلاشبہ وزیراعظم پاکستان عمران خان کے وہ الفاظ کسی بھی وائس چانسلر سے کم نہیں کہ انہیں اسلامیہ یونیورسٹی میں جاری ترقیاتی پروجیکٹس، صنعتی ترقی، بین الاقوامی پہچان میں بہتری، ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ میں گراں قدر اضافہ دیکھ کر خوشی ہوئی ہے۔ بلکہ عمران خان نے انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب کو یقین دلایا کہ وہ اپنی ترقی کی رفتار میں کمی نہ آنے دیں وہ خود اوروزیراعلیٰ پنجاب انہیں فنڈز فراہم کریں گے۔ بلا شبہ پاکستان کی سرکاری و نجی جامعات کے وائس چانسلرز اور پرو ریکٹرز کو وائس چانسلر اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور کی پیروی کرتے ہوئے پاکستانی جامعات کی وسعت اور ترقی کے ماڈل کو اپنانا چاہیے۔