اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات سید شبلی فراز نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم قیادت یہ نہ سمجھے مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق کے بیان کی بات پس منظر میں چلی جائے گی۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ عوام گوجرانوالہ اور کوئٹہ جلسوں کے ملک دشمن بیانیے اور مزار قائد کی بے حرمتی کا بھی حساب چاہتے ہیں۔ قومی اداروں کیخلاف زہر پھیلا کر دشمن کو خوش کرنے کی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔
پی ڈی ایم کی قیادت یہ نہ سمجھےکہ ایاز صادق کے بیان کی بات پس ِمنظر میں چلی جائے گی۔پاکستان کے عوام گوجرانوالہ، کوئٹہ جلسوں کے ملک دْشمن بیانیے اور مزار قائد کی بے حرمتی کا حساب چاہتےہیں،اِنکی قومی اِداروں کےخلاف زہرپھیلا کردشمن کو خوش کرنے کی مذموم کوشش کامیاب نہیں ہونے دیں گے ۔
— Senator Shibli Faraz (@shiblifaraz) November 2, 2020
اس سے قبل اپنی ایک ٹویٹ میں انہوں نے لکھا تھا کہ سیاست اور جرم کو الگ رکھنا ہوگا۔ سیاست اور پاکستان کے قومی مفاد میں سرخ لکیر کو ماننا ہوگا۔ نواز شریف کے مفادات اور قومی مفادات میں فرق قوم سمجھتی ہے۔ نواز شریف کے حواریوں کو بھی یہ ماننا پڑے گا۔
اپنی ایک اور ٹویٹ میں شبلی فراز نے لکھا کہ (ن) لیگ کے کارکنان اور ممبران سے پوچھتا ہوں، کیا وطن کے وفادار ہو یا ایک خاندان کے؟ وقت آ گیا ہے اپنی پاک دھرتی کے لئے آواز اٹھانے کا اور ایک محبِ وطن فیصلے کا۔مسلم لیگ پاکستان کا قیام ناگزیر ھو گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایاز صادق کی کہی ہوئی بات معافی سے آگے نکل چکی ہے۔ اب قانون اپنا راستہ لے گا۔ ریاست کو کمزور کرنا ناقابل معافی جرم ہے جس کی سزا ایاز صادق اور ان کے حواریوں کو ضرور ملنی چاہیے۔
خیال رہے کہ مسلم لیگ (ن) کے رہنما سردار ایاز صادق نے قومی اسمبلی نے بیان دیا تھا کہ بھارتی ونگ کمانڈر ابھینندن کے معاملے پر حکومت ڈری ہوئی تھی، اپوزیشن کیساتھ ایک مشترکہ اجلاس میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا تھا کہ ابھینندن کو جانے دیں ورنہ بھارت رات کو پاکستان پر حملہ کر دے گا۔
سردار ایاز صادق کے اس بیان پر انھیں حکومتی اور عوامی حلقوں میں سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ حکومتی وزرا نے ان سے معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ ادھر اس معاملے پر ڈی جی آئی ایس پی آر کو بھی ایک ہنگامی پریس کانفرنس کرنی پڑی جس میں انہوں نے واضح اور دوٹوک موقف اختیار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بھارتی پائلٹ ونگ کمانڈر ابھینندن کو چھوڑنے کا فیصلہ ایک ذمہ دار ریاست کی طرف سے امن کو ایک موقع دینے کی کوشش تھی۔ انہوں نے بھارت کے حملے کے خطرے کے باعث اسے چھوڑنے کے دعوے کو سختی سے مسترد کر دیا تھا۔