بیجنگ: اس ٹرین کی تیاری میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس ٹرین کی رفتار 400 کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اب مسافر اس ٹرین کی مدد سے گھنٹوں کا فیصلہ منٹوں میں طے کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب چین کی جانب سے اپنے شہریوں کے سفر کو سہل بنانے کے لئے جدید سہولیات اور رفتار کی حامل ٹرین متعارف کرائی گئی ہے۔ اس وقت اور بہت سی تیز رفتار ٹرینیں چین میں موجود ہیں۔ 2008ء میں وہاں ایک ایسی ٹرین کا افتتاح کیا گیا تھا جس کی سپیڈ 350 کلومیٹر فی گھنٹہ تھی۔ دنیا میں بلٹ ٹرین کا سب سے بڑا نیٹ ورک چین میں ہے۔ ہزاروں کلومیٹر کی لمبائی پر مشتمل یہ نیٹ ورک پورے چین میں پھیلا ہوا ہے۔
تین اعشاریہ ایک ارب ڈالر کے سرمایے کی لاگت سے تیار ہونے والی اس ٹرین پر 2005ء میں کام شروع ہوا تھا۔ اس ٹرین میں لگ بھگ 600 مسافر بیک وقت بیٹھ سکتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ منصوبہ بیجنگ اولمپکس کا حصہ تھا۔ یہ ٹرین 350 کلومیٹر کا فاصلہ صرف آدھے گھنٹے میں طے کر سکتی ہے۔
خیال رہے کہ 2011ء میں چین کے اندر دو ٹرینوں کے ٹکرانے کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تھا، اس میں سینکڑوں مسافر ہلاک ہو گئے تھے۔ اس کے بعد کچھ ماہ تک تیز ترین ٹرینوں کی تیاری کو معطل کر دیا گیا تھا۔ تاہم کچھ عرصہ بعد ہی چین میں ایک ایسی ٹرین ایجاد کی گئی جو 500 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے دوڑ سکتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ٹرین ایک قدیم چینی تلوار سے متاثر ہو کر بنائی گئی تھی۔
چین اس سے قبل شنگھائی اور تبت کو ملانے والی 1140 کلومیٹر طویل ٹرین پٹڑی بچھا چکا ہے۔ سطح سمندر سے 5 ہزار میٹر سے زائد بلند انتہائی دشوار گزار علاقوں میں بنائی گئی اس ٹرین پٹڑی کے راستے میں کئی مقامات ایسے بھی آتے ہیں، جہاں پورا سال برف جمی رہتی ہے۔
کوہ ہمالیہ کے چینی زیر انتظام علاقوں میں سٹرکوں کا بھی ایک وسیع جال بچھایا جا چکا ہے۔ ان تعمیراتی منصوبوں کی وجہ سے چینی علاقوں میں انفراسٹرکچر کی بہتری، اب وہاں چینی فوجی سرگرمیوں میں آسانی کا باعث بھی بن چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق سرحدی تنازعات کی موجودگی میں چین کی طرف سے اپنے زیر انتظام علاقوں میں انفراسٹرکچر میں نمایاں ترقی، خطے میں اس کی مجموعی برتری کا باعث بھی بن رہی ہے۔