رمضان کا مہینہ اپنے آخری مراحل میںہے۔ اس تحریر کو پڑھتے ہوئے آپ عید کی تیاریوں میں یا عید کی خوشیاں منانے میں مصروف ہوں گے۔ دونوں صورتوں میں قارئین کو عید کی تمام تر خوشیاں مبارک ہوں۔ ایک بات کا میری طرح اور لوگوں کو بھی بہت دکھ ہو گا کہ پورے رمضان پاکستان میں اس برکتوں والے مہینے کا کم مگر سیاسی ہلچل کا چرچا خوب رہا۔ رمضان کے آخری ہفتے میں دہشت گردی کے بھی دو ایک واقعات انتہائی افسوس ناک ہیں۔ خاص کر کراچی یونیورسٹی میں ایک خاتون بمبار کے ہاتھوں تین غیر ملکی اساتذہ کے دو تین مقامی افراد کی ہلاکت دکھ کا باعث ہے۔ ایسی خبروں سے خدشات یہی ہیں کہ ملک انارکی کی طرف جا رہا ہے۔ سیاسی جماعتوں کا صرف ایک دوسرے کو اکھاڑ پھینکنے کی جدوجہد میںمصروف رہنا کوئی اچھا شگون نہیں۔ نہ کوئی عوام کی مشکلات کا سوچ رہا ہے اور نہ بیرونی سازشوں کی طرف توجّہ کر رہا ہے۔ یہ خودکش دھماکے کیا صرف اندرونی خلفشار کی طرف اشارہ کر رہے ہیں؟ بلوچستان کی دو ایک ملک دشمن تنظیمیں آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں۔ وہ بیرونی اشاروں کے بغیر تو نہیںہو سکتیں۔ آخر ان کا مسئلہ کیا ہے؟ اس پر سب کو سر جوڑ کر بیٹھنا تو چاہیے۔
اور بہت سے واقعات تو ایک طرف مگر دو خبریں پاکستان کی حکومت، وہاں کی سیاسی جماعتوں اور عوام کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہونی چاہئے تھیں۔ ایک تو یہ کہ بنگلہ دیش نے مبینہ طور پر بھارت کی شہ پر ایک سرکاری اعلامیہ جاری کیا ہے جس کے مطابق ہر سال 25مارچ کو بنگلہ دیش سرکاری طور پر ’’نسل کشی کا دن‘‘ یعنی جینوسائیڈ ڈے منائے گا۔ اس کی دلیل یہ دی گئی کہ سابق مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوجیوں نے 25 مارچ 1971ء کو ’’آپریشن سرچ لائٹ‘‘ کے ذریعے اپنے مقامی سہولت کاروں کے ساتھ مل کر بنگالیوں کا قتلِ عام شروع کیا تھا۔ بنگلہ دیش کی سرکار یہ سمجھتی ہے کہ اس آپریشن کے دوران تیس لاکھ نہتے بنگالیوں کو قتل کیا گیا اور تین لاکھ عورتوں کی عصمت دری کی گئی۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ پچاس برس کے بعد بنگلہ دیش نے یہ فیصلہ کیوں کیا؟ بنگلہ دیش ایک عرصے سے پاکستان
سے یہ مطالبہ کرتا آ رہا ہے کہ 1971ء کے اس جینوسائیڈ پر پاکستان سرکاری طور پر معافی مانگے۔ اگر پاکستان یہ کر لے تو وہ جرم کو تسلیم کرے اور ایسا کرنے پر بنگلہ دیش اور بھارت اسے بین الاقوامی عدالت انصاف میں لے جا کر جنگی جرائم کے تحت مقدمہ چلا سکتے ہیں۔ اب یہ چال چلی جا رہی ہے کہ بین الاقوامی سطح پر 25مارچ کو بنیاد بنا کر اپنے مقاصد میںکا میابی حاصل کی جائے۔ پاکستان کی حکومت اور سیاسی جماعتوں کو اس بات کی خبر بھی ہے؟ مجھے اس پر شبہ ہے۔ کیوں کہ تمام جماعتیں ایک دوسرے کو پچھاڑنے کے لیے پوری طاقت لگا رہی ہیں اور انہیںدنیا کی کوئی خبر نہیں۔
ایک اور خبر کی طرف میں اشارہ کروںگا۔ اسی سال مارچ میںامریکا کی ری پبلکن پارٹی کے رکن کانگریس اسکاٹ پیری نے کانگریس میں ایک بل پیش کیا ہے، جس کے تحت انہوں نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان پر عسکری اور معاشی پابندی عاید کر دی جائے۔ ان کے مطابق پاکستان ریاستی دہشت گرد ملک ہے۔ فی الحال اس بل کو کانگریس کی ہاؤس کمیٹی میںبھیج دیا گیا ہے۔ مگر واقعات اور حالات کیا یہ نہیں بتا رہے ہیں کہ امریکا پاکستان کے بارے میںکس قدر بدگمانی کا شکار ہے؟ مجھے حیرت ہے کہ پاکستان میں میڈیا یا سیاسی جماعتوں نے اس کا کوئی نوٹس نہیں لیا ہے۔
پاکستان میں ہو کیا رہا ہے؟ ایک منتخب حکومت کے خلاف ہر طرف سے اچانک جان کی بازی لگائی گئی اور بہت تھوڑے عرصے میں حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک منظور کرا لی گئی۔ اتحادی جماعتوں اور حکمراں جماعتوں کے اراکین قومی اسمبلی کو منحرف کرایا گیا اور اب جب کہ نئی حکومت جو اپوزیشن جماعتوں پر مبنی تھی، اقتدار میں آ چکی ہے، تو اب کی اپوزیشن ہفتوں میں نہیں، بلکہ دنوں میں نئی حکومت کو گرانے کے لیے زور لگا رہی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ صرف ایک سال کا عرصہ رہ گیا تھا انتظار کیا جاتا اور نئے انتخابات کے ذریعے جمہوری عمل کو بروئے کار لایا جاتا۔ اور اب جب کہ حالات بدل چکے ہیں۔ عمران خان اور ان کے اتحادیوں کو بھی ایک سال کا انتظار کرنا چاہیے تھا تاکہ وہ اپوزیشن کا مثبت کردار ادا کر کے انتخابات میں اپنی جگہ پھر بنا لیتے۔
کچھ سیاسی تبصرہ نگار یہ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان جس طرح الیکٹیبل کی مدد سے حکومت میں لائے گئے تھے، اسی طرح ہٹا بھی دیئے گئے ہیں۔ یعنی ایک تنقید ہے جس کے ذریعے عمران خان کو خاموش کرانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اگر یہ تنقید درست ہے تو پھر یہ جائز کیسے قرار دیا جا سکتا ہے کہ اس نئی حکومت کو لانے کے لیے بہت ہی بھونڈے انداز سے تحریک انصاف کے منحرف اراکین اور ایم کیو ایم کے حکمراں اتحادی اراکین پارلیمنٹ کی وفاداری تبدیل کرائی گئی۔ ایم کیو ایم کے جتنے وزراء پچھلی حکومت میں تھے، اتنی ہی وزارتیں اس نئی حکومت میںبھی دی گئی ہیں۔ ان کے وہ مطالبات اب بھی تسلیم نہیں کیے گئے ہیں جو اس نے پچھلی حکومت سے کیے تھے۔ اس لیے صاف ظاہر ہے کہ ان کی حمایت بزور تبدیل کرائی گئی ہے۔ جس کے بارے میں خود ایم کیو ایم کے اراکین منہ نہیںکھول رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی نے جس طرح مسلم لیگ (ن) کا ساتھ دیا ہے، اس پر سابق وفاقی وزیر فواد چودھری یہ کہہ رہے ہیں کہ آصف زرداری کو اپنی پارٹی مسلم لیگ میں ضم کر دینی چاہیے۔ اگر فواد چودھری کی بات تسلیم کر لی جائے تو کوئی ان سے پوچھے کہ عمران کے ماتحت کام کرنے اور ان کی ہر بات کی حمایت کرنے پر عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کو کیوں نہ یہ مشورہ دیا جائے کہ وہ تحریکِ انصاف کی رکنیت حاصل کر لیں؟
ایک بات اور۔ مولانا فضل الرحمن یہ بات کہتے نہیں تھکتے تھے کہ 2018ء کے انتخابات میں اس قدر دھاندلی ہوئی تھی کہ قومی اسمبلی جعلی تھی اور پچھلی حکومت غیر قانونی تھی اس لیے نئے انتخابات کرائے جائیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسی اسمبلی میں ان کے رشتے دار اور ان کی ارٹی کے اراکین چار سال بیٹھے رہے اور اسی اسمبلی کے تحت اب ان کی جماعت نئی حکومت کی کابینہ میںشامل ہے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو مطالبات آج نئی اپوزیشن کر رہی ہے، وہ ہی آج کی حکومت اس وقت کرتی تھی اور حکومت کے دفاع میں جو کچھ شہباز شریف کے ساتھی آج جملے کہتے ہیں، وہیں عمران حکومت بھی کہتی تھی۔ جملے وہی ہیں۔ ادا کرنے والے افراد ایک طرف سے دوسری طرف چلے گئے ہیں۔ پاکستان کی سیاسی جماعتیں پہلے ملک بچائیں۔