انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے اقتدار

انوکھا لاڈلہ کھیلن کو مانگے اقتدار

گزشتہ چار سال میں ملکی معیشت جس تباہی کے دہانے پر پہنچا دی گئی ہے اس کا تقاضا تو بہرحال یہی ہے کہ جتنی جلدی ہو سکے ملک میں سیاسی اور انتظامی استحکام پیدا کیا جائے اور یقینا اس کی ذمہ داری موجودہ نئی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ عمران خان اور ان کے حواری جس طریقے سے حکومت سے علیحدگی کے بعد ملک میں عدم استحکام اور انارکی کو جنم دے رہے ہیں جس طرح آئین و قانون کی دھجیاں بکھیری جا رہی ہیں ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اب مسجد نبویﷺ کے واقعے کو ہی دیکھ لیں اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور ظاہر ہے یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے اس کی وجہ سے حالات میں شدت بڑھ گئی ہے۔
میرے جیسے لوگ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ آخر حالات کس طرف جا رہے ہیں یا پھر صورت حال کو کس طرف دھکیلا جا رہا ہے۔ پسِ چلمن کیا ہو رہا ہے کچھ تو بہرحال ہو رہا ہے ورنہ اتنی دیدہ دلیری سے مسترد شدہ عمران نیازی اور اس کا جتھہ جو اب بھی مزاحمت سے باز نہیں آ رہا اتنی ہمت نہ کرتا۔ کیا یہ سب مل کر نظام کو تلپٹ کرنا چاہتے ہیں؟ کیا ملک میں صدارتی نظام کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے؟ بڑے بڑے دانشور بھی اس موضوع پر کھل کر لب کشائی نہیں کر رہے۔ یہ سوال میں آپ کے سوچنے کی غرض سے بھی چھوڑے جا رہا ہوں اور خود بھی اس کے جواب کا متلاشی ہوں کہ آخر ان کے پیچھے کون سی طاقت ہے؟
اب یہ بات تو کوئی راز نہیں ہے کہ عمران خان اور ان کے ساتھی کسی بھی قیمت پر اس حکومت کو اور شہباز شریف کو بطور وزیراعظم کسی طور برداشت نہیں کر پا رہے۔ لہٰذا وہ چاہتے ہیں کہ شہباز حکومت کو عدم استحکام کا شکار کیا جائے چاہے اس کی وجہ سے سارا نظام ہی کیوں نہ لپیٹ دیا جائے ان کو اتنی جلدی کیوں ہے اس کی وجوہات میں آگے چل کر بیان کرتا ہوں۔
عمران خان کی نفسیات کا جائزہ لیا جائے تو وہ انتہائی متکبر قسم کے انسان واقع ہوئے ہیں جو اپنے آپ کو کوئی مافوق الفطرت شے سمجھتے ہیں، ان کو گمان ہے کہ وہ دنیا کے ذہین ترین اچھا بولنے، اچھا سننے والے، سمجھدار ترین اور عوام میں بہت مقبول لیڈر ہیں جو کہ شاید ہمیشہ اقتدار میں رہیں گے لیکن اچانک اقتدار چھن جانے کی وجہ سے وہ اب شدید ذہنی دباؤ اور انتشار کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ان جیسے لاڈلے لیڈر کے پاؤں تلے سے اقتدار اس طرح سرک جائے گا۔ اب ان کو ذہنی طور پر یہ تسلیم کر لینا چاہئے کہ ان کی حکومت بیساکھیوں پر قائم کی گئی تھی اور انہی بیساکھیوں پر چل رہی تھی جیسے ہی بیساکھیاں کھینچ لی گئیں وہ حکومت سمیت دھڑام سے زمین بوس ہو گئے۔ جب انہوں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو انہیں اٹھانے والا کوئی نہ تھا جس وجہ سے وہ یہ دھچکا برداشت نہیں کر پا رہے۔ دراصل ذہن سازی کرنے والوں نے 2010 سے ہی ان کا ایسا مائنڈ سیٹ بنا دیا تھا کہ وہ اب حکومت چھن جانے کا دکھ برداشت نہیں کر رہا ہے، اپنی وزارت عظمیٰ کے آخری دنوں میں جب عدم اعتماد کی تحریک زوروں پر تھی تو جو انہوں نے آئین شکنی کا مظاہرہ کیا یہ سب ان کی اسی ذہنی تربیت کا شاخسانہ تھا 
اور آج بھی وہ عدلیہ انتظامیہ اور اداروں کو ایسے ہی آنکھیں دکھا رہے ہیں اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی حلف برداری جیسے معاملات میں گورنر پنجاب اور پرویز الٰہی کو بھی آئین شکنی کی ترغیب دیتے رہے ہیں۔ اس کے برعکس ان کے مخالفین حوصلے اور بردباری کا ثبوت دے رہے ہیں اور بار بار عدالتوں سے ہی رجوع کر رہے ہیں تاکہ ممکنہ ٹکراؤ سے بچا جا سکے اور پنجاب میں حکومت سازی کے لیے وہ مرکز والی حکمت عملی اپنائے ہوئے ہیں۔ عمران خان اور اتحادیوں کی یہ پوری کوشش ہے کہ ایسا ماحول پیدا کیا جائے کہ نہ چاہتے ہوئے بھی تیسری طاقت کو مداخلت پر مجبور کر دیا جائے اور ’’کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے‘‘ کے مصداق پی ڈی ایم کی حکومت کو چلتا کیا جائے۔اس وقت عمران خان کے سامنے تین بڑے چیلنجز ہیں جو زبان زدعام ہیں لیکن ان کا ذکر مختصراً ضروری ہے۔ ایک تو ان کے قریبی رفقا نے ان کے دماغ میں بھر دیا ہے کہ اگر شہبازشریف سوا سال کی حکومت پوری کر گئے تو اگلے انتخابات جیتنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جائیں گے لیکن میری ذاتی رائے میں حکومت مدت پوری کرے یا نہ کرے تحریک انصاف منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں جیت تو کیا 50 سیٹیں بھی لے جائے تو بڑی بات ہو گی کیونکہ پونے چار سالہ دور حکومت میں انہوں نے معیشت کے ہر شعبہ کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ مہاتما اپنے آپ کو قائداعظم سمجھ بیٹھے ہیں اور ایک کلٹ لیڈر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ خیر، واپس آتے ہیں حکومتی مدت کی بات ہو رہی تھی۔ عمران خان اور حواریوں کو اس بات کا بھی بخوبی ادراک ہے کہ شہبازشریف عسکری حلقوں میں بھی قابل قبول ہیں اور ان کی طبیعت کلی طور پر نوازشریف سے مختلف ہے لہٰذا تحریک انصاف، ق لیگ اور شیخ رشید جو کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے بہت قریب رہ چکے ہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ حکومتی مدت پوری ہونے کے کیا نتائج برآمد ہو سکتے ہیں دوسرا اگر شہبازشریف برادر اسلامی ملک سعودی عرب کی مدد سے تیل کی قیمت پر قابو پا لیتے ہیں جس کی غرض سے وہ سعودی عرب کے دورے پر گئے تھے اور بجلی گیس پانی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پانے کے ساتھ مہنگائی کو بھی تھوڑی بہت لگام ڈالنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو آنے والے انتخابات میں ان کو شکست دینا دیوانے کے خواب جیسا ہو گا۔ تیسرا جو سب سے اہم ایشو ہے وہ فوج کے سپہ سالار کی تعیناتی کا ہے جیسا کہ سب جانتے ہیں رواں سال 29 نومبر کو موجودہ فوج کے سپہ سالار ریٹائر ہو جائیں گے ظاہر ہے یہ ایشو سیاسی اور عسکری حلقوں میں انتہائی اہمیت کاحامل ہے جس پر فواد چودھری جیسے ترجمانوں نے قبل از وقت ہی رونا دھونا شروع کر دیا ہے اور ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اس کو زیربحث لایا جا رہا ہے کیونکہ سب سمجھتے ہیں اس حوالے سے عمران خان کے خواب چکنا چور ہو چکے ہیں۔ اب اوپر زیربحث لائے گئے تمام معاملات کے بعد عمران خان بالکل وہی کر رہے ہیں جو ان کو کرنا چاہئے جو ان کے استاد ایک ریٹائرڈ جرنیل نے سکھایا تھا جس طریقے سے ان کی ذہن سازی کی گئی تھی، بغیر اس بات کی پروا کرتے ہوئے کہ ملک و قوم پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔ بالکل ویسے ہی جیسا کہ دوستوں کا طریقہ کار ہے اپنے مخالفوں کے لیے پچھلے دس سال سے کرپشن، چور، ڈاکو کا راگ الاپ رہے ہیں اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی رہے ہیں خصوصاً سوشل میڈیا پر۔ بقول عمران خان وہ اعصابی جنگ لڑنے کے ماہر ہیں لہٰذا وہ یہی کلیہ اب بھی لاگو کر رہے ہیں مگر کرپشن، چور، ڈاکو کا نعرہ کافی حد تک پٹ چکا ہے کیونکہ ان کی حکومت اور کابینہ میں سارے کرپٹ لوگ شامل تھے۔ دوسرا اپوزیشن کو بدعنوانی کے مقدمات و الزامات پر جیلوں میں بند رکھنے کے باوجود کچھ برآمد نہ ہو سکا۔ اب وہی صدیوں پرانا گھسا پٹا نعرہ ’’امریکہ کا جو یار ہے، غدار ہے‘‘ حالانکہ امریکہ کے کہنے پر عمران حکومت نے کیا نہیں کیا۔ سی پیک کی رفتار سست کر دی گئی۔ آسیہ کے متعلق عمران خان کا انٹرویو ریکارڈ پر ہے جو ایک غیرملکی امریکی صحافی کو دیا گیا اور پھر آسیہ بی بی کو امریکہ کے حوالے کر دیا گیا۔ امریکہ اور آئی ایم ایف کے دباؤ پر سٹیٹ بینک سمیت ساری معیشت ہی ان کے حوالے کر دی۔ ابھی نندن کو امریکی دباؤ پر راتوں رات ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا تو پھر اب کس منہ سے ایک کاغذ کا ٹکڑا لہرا کر اینٹی امریکہ اور سازش کا بیانیہ بنایا جا رہا ہے جس وجہ سے اپوزیشن کو غدار اور سازشی قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ تمام حربے پرانے سکرپٹ کا حصہ ہیں اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی وضاحت آنے کے بعد ان الزامات کی وقعت ہی کیا رہ جاتی ہے اور دوست جو آخری حربہ آزمایا کرتے ہیں اب عمران خان بھی عین تربیت کے مطابق وہی مذہبی کارڈ کو استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے اس ملک میں سب سے بڑے متقی اور پرہیزگار وہی رہ گئے ہیں اور خدانخواستہ تمام مخالف سیاسی جماعتیں اور ان کے کارکن لادین ہیں۔ مگر یہ پروپیگنڈا بھی مارکیٹ میں بُری طرح ناکامی سے دوچار ہو چکا ہے۔تو اب تیسرا اور آخری ان کا خوف یا ڈر یہ ہے جو کہ بہت اہم ہے کہ اگر انتخابات جلدی نہیں ہوتے جو کہ بظاہر ممکن نہیں ہے تو وہ جلد ہی ایکسپوز ہونا شروع ہو جائیں گے اور بدعنوانی کے کئی سکینڈل سامنے آ جائیں گے جس میں سب بڑا خطرہ فارن فنڈنگ کیس کا ہے جو کہ چند ہی ماہ میں فیصلہ کن حیثیت اختیار کر چکا ہے اور اس کا نتیجہ جلد برآمد ہو جائے گا۔ اس کے ساتھ توشہ خانہ پنڈی رنگ روڈ فرح خان اور ایم جی موٹرز کے سکینڈل بھی میڈیا کی زینت بن رہے ہیں۔ اب اگر فارن فنڈنگ کا فیصلہ ان کیخلاف آتا ہے تو نہ صرف ناقابل تلافی نقصان ان کی ذات کو ہو گا بلکہ ان کی جماعت کی سیاست بھی ہمیشہ کے لیے دفن ہو جائے گی اور آنے والے انتخابات میں وہ کس حیثیت اور کس نعرے کے ساتھ عوام کے پاس جائیں گے اور اس وقت تک ان کے تمام سلوگن کرپشن، چور، ڈاکو، سازشی، غدار، امریکہ کا یار اور مذہبی منافرت سمیت تمام دوسرے بیانیے بھی بُری طرح شکست کھا جائیں گے کیونکہ ان کی چار سالہ کارکردگی تو صفر ہے لہٰذا ان کے پاس مزید بیچنے کے لیے کوئی سودا نہ ہو گا انوکھا لاڈلہ پاکستان سے کھلواڑ کرنے کے لیے مانگے اقتدار۔

مصنف کے بارے میں